اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

فاتح بیتُ المقدس سلطان صلاح الدّین ایوبی کا یومِ وفات

اشتہار

حیرت انگیز

آج اسلامی تاریخ کے ایک عظیم فاتح اور مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار سلطان صلاح الدّین ایوبی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے جنھوں‌ نے جنگ کے بعد 1187 میں‌ قبلۂ اوّل کو صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کروایا تھا۔

صلاح الدّین ایّوبی نہ صرف تاریخِ اسلام بلکہ تاریخِ عالم کے نام ور حکم رانوں میں سے ایک ہیں۔ بے مثال شجاعت اور جرأت و استقلال ہی نہیں‌ فتحِ بیتُ المقدس کے موقع پر سلطان کی بالخصوص عیسائیوں اور دشمن کے ساتھ حسنِ سلوک، درگزر اور رواداری نے بھی دنیا میں‌ اسلام کی خوب صورت تصویر پیش کی۔

صلاح الدّین ایوبی 1138ء میں تکریت میں پیدا ہوئے جو آج عراق کا حصّہ ہے۔ اُن کے باپ کا نام نجم الدّین ایوب تھا جو قلعۂ تکریت کا حاکم تھا۔ جب سلطان کی پیدائش ہوئی تو اسے اس عہدہ سے سبک دوش کر دیا گیا۔ سلطان کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی دور دمشق اور بعلبک میں گزرا جہاں اُن کا باپ پہلے عماد الدّین اور پھر نورالدّین زنگی کے ماتحت اُن علاقوں کا گورنر رہ چکا تھا۔ سلطان نے بعلبک کے دینی مدارس اور دمشق کی جامع مسجد میں تعلیم حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانو‌ں کی صلیبیوں سے جنگیں زوروں پر تھیں اور نور الدّین زنگی نے میدان میں کئی کام یابیاں سمیٹی تھیں۔ صلاح الدّین نے بھی اسی حکم راں‌ کے سائے میں رہ کر اپنی شجاعت اور دلیری کو منوایا تھا۔ وہ اسی کے زمانے میں‌ ایک مہم پر اپنے چچا کے ساتھ گئے اور پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ مصر میں ایّوبی حکومت کی بنیاد پڑگئی۔ ادھر نور الدّین زنگی کی آنکھ بند ہوئی تو کوئی تخت نہ سنبھال سکا اور آخر کار سلطان صلاح الدّین نے عنانِ حکومت سنبھال لی۔ حکم رانی اور انتظام و انصرام کے دوران اپنوں کی کم زوریوں کے ساتھ عیسائیوں کی سازشوں سے نمٹنے والے صلاح الدّین ایّوبی کو صلیبیوں‌ کے اتحاد نے جنگ کے میدان میں اترنے پر مجبور کیا تو وہ پیچھے نہ ہٹے۔ بیتُ المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ عیسائیوں کی شرانگیزیاں اور مسلمانوں‌ کے قافلوں کی لوٹ مار اور مظالم نے ان کے جذبۂ جہاد کو ہوا دی اور ایک طرف سارا یورپ اور مغرب کے عیسائی ممالک کے اتحاد کے باوجود مسلمانوں نے صلاح الدّین ایوبی کی قیادت میں‌ بیتُ المقدس کو فتح کرلیا۔ بیتُ المقدس پر سلطان کی عمل داری نے پورے یورپ کے مذہبی جذبات کو اس قدر بھڑکا دیا کہ یورپ کے تین بادشاہوں انگلستان کے بادشاہ رچرڈ شیردل، فرانس کے آگسٹن اور جرمنی کے فریڈرک باربروس نے متحد ہو کر انتقام لینے کی غرض سے جنگ کا اعلان کیا، لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی۔ یہ جنگ کئی مقامات پر لڑی گئی اور اتحادی افواج کو سلطان کے ہاتھوں‌ شکست ہوئی جب کہ حطین کی فتح کے بعد صلاح الدّین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا جہاں‌ چند روز تک خوں ریز لڑائی کے بعد عیسائیوں‌ نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس میں‌ سلطان کی فوج پورے 88 سال بعد داخل ہوئی اور مسلمانوں‌ نے فلسطین کی سرزمین پر قدم رکھ کر عالمِ‌ اسلام کو عظیم الشّان کام یابی کی نوید سنائی۔

- Advertisement -

سلطان نے ہر موقع پر فراخ‌ دلی کا ثبوت دیا جس کی تاریخ شاہد ہے اور بردباری سے کام لے کر معاملات کو سلجھایا۔ صلیبی جنگ کے اختتام اور فتح کے بعد جو عزّت اور عظمت سلطان صلاح الدّین ایوبی کو نصیب ہوئی، وہ آج تک کسی فاتح کو حاصل نہ ہو سکی۔

مؤرخ جانتھن فلپس نے سلطان صلاح الدّین کی زندگی پر اپنی کتاب ‘دی لائف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سلاڈن (صلاح الدین) ‘میں لکھا ہے کہ ‘یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یروشلم کی عورتوں نے اپنے بال کٹوا دیے تھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں نہ آئیں لیکن فلپس لکھتے ہیں کہ فتح اور یروشلم پر قبضے مکمل کرنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سلطان صلاح الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔’

یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جن کی بنیاد شاید ماضی کے چند واقعات تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں سلطان کو کبھی بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کیا گیا اور ان پر عیسائیوں اور یہودیوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام لگا کر ‘خون کا پیاسا’ اور ‘شیطان کی اولاد!’ کہا گیا، وہاں اور دنیا کے دیگر غیرمتعصب مؤرخین کی کتابوں‌ نے ان کی صحیح تصویر پیش کی اور یورپ میں انھیں ایک ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔

مسلسل یورشوں‌ کا سامنا اور جنگوں‌ سے سلطان کی صحّت خراب ہو گئی تھی اور 4 مارچ 1193ء کو صلاح الدّین نے اجل کی آواز پر لبیک کہا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں