اردو ادب میں بحیثیت رومانوی شاعر سلام مچھلی شہری نے اپنا مقام بھی بنایا اور وہ ان شعراء میں سے ایک تھے جن کا کلام بہت مقبول ہوا۔ اس کا سبب سلام مچھلی شہری کا طرزِ سخن ہے۔ نثر نگاری بھی سلام مچھلی شہری کا ایک حوالہ ہے۔
آج شاذ ہی سلام مچھلی شہری کا ذکر ہوتا ہے اور نئی نسل ان سے ناواقف ہے، لیکن متحدہ ہندوستان میں سلام مچھلی شہری نے جب اپنا ادبی سفر شروع کیا تو نئے طرز کے رومانوی شاعر کے طور پر نوجوانوں میں خاصے مقبول تھے۔ سلام مچھلی شہری ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ شاعری میں نظم ان کا خاص میدان رہا۔ نظم نگاری کے علاوہ انھوں نے نثر میں بھی اپنا زورِ قلم دکھایا اور ڈرامہ و ناول جیسی اصناف میں ان کی تخلیقات منظر عام پر آئیں۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران سلام مچھلی شہری نے کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا لکھے۔ ان کا ایک ناول ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے عنوان شایع ہوا تھا۔
یکم جولائی 1921ء کو وہ جونپور کے مچھلی شہر میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے مچھلی شہری ان کے نام سے جڑا رہا۔ سلام مچھلی شہری کی تعلیم کا سلسلہ ہائی اسکول سے آگے نہیں بڑھ سکا لیکن کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں ملازمت مل گئی تھی اور اسی وابستگی نے انھیں شعر و ادب کی دنیا میں بحیثیت شاعر اور ادیب نام بنانے کا موقع دیا۔ کتب خانے میں انھوں نے اپنی رسمی تعلیم کی کمی اور مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ لائبریری میں سلام مچھلی شہری کو مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے اور ادب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔
1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویس کے طور پر کام کرنے لگے۔ بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے ان کا تبادلہ سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی کے ریڈیو اسٹیشن میں بطور پروڈیوسر تقرری ہوگئی۔ ان ملازمتوں کے دوران کئی اہلِ علم ہستیاں، قلم کار اور آرٹسٹوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ نشستوں نے بھی ان کی فکر اور خیال کو پختہ کیا اور سلام مچھلی شہری ایک منفرد شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ بھارت کے اس مشہور شاعر کو ’پدم شری ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔ سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ کے عنوان سے شایع ہوئے۔
سلام مچھلی شہری نے 19 نومبر 1973ء کو دہلی میں وفات پائی۔ یہاں ہم اس شاعر کا ایک کلام نقل کررہے ہیں۔ یہ ایک نظم ہے جسے مشہور گلوکاروں نے گایا اور یہ اپنے وقت کی ایک مقبول نظم تھی۔
بہت دنوں کی بات ہے
فضا کو یاد بھی نہیں
یہ بات آج کی نہیں
بہت دنوں کی بات ہے
شباب پر بہار تھی
فضا بھی خوش گوار تھی
نہ جانے کیوں مچل پڑا
میں اپنے گھر سے چل پڑا
کسی نے مجھ کو روک کر
بڑی ادا سے ٹوک کر
کہا تھا لوٹ آئیے
مری قسم نہ جائیے
نہ جائیے نہ جائیے
مجھے مگر خبر نہ تھی
ماحول پر نظر نہ تھی
نہ جانے کیوں مچل پڑا
میں اپنے گھر سے چل پڑا
میں چل پڑا میں چل پڑا
میں شہر سے پھر آ گیا
خیال تھا کہ پا گیا
اسے جو مجھ سے دور تھی
مگر مری ضرور تھی
اور اک حسین شام کو
میں چل پڑا سلام کو
گلی کا رنگ دیکھ کر
نئی ترنگ دیکھ کر
مجھے بڑی خوشی ہوئی
میں کچھ اسی خوشی میں تھا
کسی نے جھانک کر کہا
پرائے گھر سے جائیے
مری قسم نہ آئیے
نہ آئیے، نہ آئیے
وہی حسین شام ہے
بہار جس کا نام ہے
چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
نہ جانے جاؤں گا کدھر
کوئی نہیں جو ٹوک کر
کوئی نہیں جو روک کر
کہے کہ لوٹ آئیے
مری قسم نہ جائیے
بہت دنوں کی بات ہے
فضا کو یاد بھی نہیں
یہ بات آج کی نہیں
بہت دنوں کی بات ہے