تازہ ترین

بلوچستان میں بیٹیوں کی خرید وفروخت، ذمہ دار کون ؟

زمانہ قدیم میں تجارتی اشیاء کی خرید و فروخت تو تھی ہی ساتھ ہی غلاموں اور لونڈیوں کو بھی بیچا اور خریدا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔

پاکستان کے پسماندہ صوبے بلوچستان میں لوگ آج بھی اپنی بیٹیاں بیچنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ کوئی ثقافت یا روایت نہیں بلکہ غربت کی وہ چکی ہے جس میں پس کر وہاں کے غریب عوام نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے جگرگوشوں اور عزت کو نقد رقم کے عوض غیروں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں نمائندہ اوستہ محمد چاکر خان دیناری نے بلوچستان کی حالت زار اور بچیوں کی خریدو فروخت سے متعلق افسوسناک صورتحال سے ناظرین کو آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ گنداخا، چوکی جمالی، اوستہ محمد اور آس پاس کے علاقوں میں پے درپے آنے والے سیلاب نے وہاں کے مکینوں کو تباہ وبرباد کردیا اور اس پر ستم یہ کہ حکومت وقت اور رفاعی تنظیموں نے بھی محض خانہ پُری کے سوا کوئی کام نہ کیا۔

نمائندہ اوستہ محمد کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے پریشان کو ہوکر وہ لوگ تو علاقہ چھوڑ گئے جن کے پاس کہیں اور جاکر بسنے کے ذرائع اور وسائل تھے لیکن غریب لوگ مزید قرضے کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔

چاکر خان دیناری نے بتایا کہ پھر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ قرضے اتارنے اور پیٹ بھرنے کیلیے اپنی بیٹیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے اور اب تک کم و بیش سیکڑوں کم عمر بچیوں کو لاکھوں روپے کے عوض فروخت کیا جاچکا ہے جن کی شادیاں بڑی عمر کے افراد سے کرادی جاتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ علاقہ پولیس بھی اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ وہاں حکومت کی رٹ نہیں ہے اور تھانوں کا انتظام بھی بااثر قبائلی افراد ہی چلاتے ہیں۔

علاوہ ازیں بلوچستان میں غربت کے شکار سیلاب متاثرین نے اپنی بیٹیوں کو داؤ پر لگادیا۔ اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں چشم کشا انکشافات سامنے آئے ہیں۔

ضلع اوستہ محمد کے سیلاب متاثرین غربت کا سامنا کرنے کے لیے اپنی بیٹیوں کو بیچنے لگے۔ سیلاب کے بعد صوبے کے مختلف علاقوں میں کم عمر لڑکیوں کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوگیا۔

متاثرین کے مطابق سیلاب کے بعد مزدور اور کسان طبقہ سُود پر قرضہ لیتا رہا۔ سُود اور قرضہ نہ چُکانے پر انہیں اپنی بیٹیوں کو بیچنا پڑا۔

اس افسوسناک صورتحال کے باوجود صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدامات نہ اٹھانا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

Comments

- Advertisement -