منگل, ستمبر 17, 2024
اشتہار

سلیل چودھری: مشہور فلمی موسیقار اور شاعر کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

سلیل چودھری نے بطور موسیقار ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بڑا نام و مقام پایا لیکن وہ ایک ادیب اور شاعر بھی تھے۔

مغربی بنگال میں سلیل چودھری نے 5 ستمبر 1995 کو اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ سلیل چودھری 19 نومبر 1923ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد آسام میں بطور ڈاکٹر تعینات تھے۔ آسام ہی میں سلیل کا بچپن گزرا تھا۔ وہیں وہ وسیقی کی جانب راغب ہوئے۔ سلیل چودھری نے کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان کے بڑے بھائی آرکسٹرا میں کام کرتے تھے اور ہر طرح کے آلاتِ موسیقی سے واقف تھے۔ سلیل چودھری کو بچپن سے ہی بانسری بجانے کا بہت شوق تھا۔ بعد میں انھوں نے پیانو اور وائلن بھی بجانا سیکھا۔

کولکتہ سے گریجویشن کرنے کے بعد سلیل چودھری ہندوستانی تنظیم سے منسلک ہوگئے۔ یہ انقلابی ترانوں کی گونج اور آزادی کی ترنگ کا دور تھا۔ اسی جدوجہد میں سلیل چودھری بھی شامل ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ان کا تخلیقی شعور اور ان کی صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں اور وہ ایک بہترین موسیقار ہی نہیں شاعر اور ادیب بھی کہلائے۔

- Advertisement -

سلیل چودھری کے والد ڈاکٹر بھی تھے اور باذوق آدمی بھی۔ ان کے پاس موسیقی کا بڑا ذخیرہ تھا اور وہ اسٹیج ڈراموں میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سلیل چودھری نے آسام میں چائے کے باغات میں لوک گیت سنے تھے۔ مرد اور عورتوں کو کام کرتے دیکھا تھا جو گنگاتے جاتے اور اپنے کام میں‌ لگے رہتے۔ اسی زمانے میں سلیل نے بانسری بجانا شروع کیا اور یہی ان کے فنی سفر کا گویا آغاز تھا۔ سلیل کے والد بھی برطانوی راج سے نفرت کرتے تھے اور چائے کے باغات کے مظلوم مزدوروں کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والے سلیل چودھری نے جلد ہی اپنی سماجی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے اور پرفارمنگ آرٹ کی تحریکوں سے بھی جڑے رہے۔ اسی نے ترقی پسند سیاسی سرگرمی کو ایک تخلیقی میدان تک پہنچایا۔ اس عرصے میں سلیل نے بے شمار گیت لکھے اور ان کے ذریعے دیہات اور شہروں کے عوام کو ناانصافی اور جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیا۔ یہ شعور اور بیداری کے گیت تھے جو تحریکِ آزادی کا حصّہ بنے‌ اور آج بھی ان کو سنا جاتا ہے۔ سلیل کے بنگالی گانوں نے بنگالی جدید موسیقی کا رخ ہی بدل دیا تھا۔

برطانوی راج کے زمانہ میں سلیل نے اپنے فن اور ہنر کو غیرپیشہ ورانہ انداز میں اپنے عوام کے لیے برتا۔ جب کہ ان کا پیشہ ورانہ سفر پچاس کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا۔ سلیل چودھری کو اس وقت ایک شان دار گیت نگار کے طور پر دیکھا گیا اور آزادی کے بعد وہ ایک بہت ہی پختہ اور غیر معمولی باصلاحیت موسیقار کے طور پر سامنے آئے۔ پچاس کی دہائی کے آغاز میں فلم ‘دو بیگھہ زمین’ کے لیے سلیل بمبئی پہنچے اور موسیقی کمپوز کی۔ اس کے بعد وہ 75 سے زیادہ ہندی فلموں، 45 بنگالی اور درجنوں ملیالم، تامل، تیلگو فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دیتے رہے۔

سلیل ہندوستانی سنیما کی دنیا کے سب سے زیادہ ورسٹائل موسیقار تھے۔ ناقدین نے انھیں غیرمعمولی ذوقِ تخلیق کا حامل فن کار کہا ہے۔ راج کپور نے ایک بار کہا تھا کہ ‘وہ تقریباً کوئی بھی آلہ بجا سکتا ہے جس پر وہ ہاتھ رکھتا ہے، طبلے سے لے کر سرود تک، پیانو سے لے کر پکولو تک’۔ سلیل کی موسیقی مشرق اور مغرب کا انوکھا امتزاج تھی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ ‘میں ایک ایسا انداز بنانا چاہتا ہوں جو سرحدوں کو عبور کرے – ایک ایسی صنف جو زور دار اور چمک دار ہو، لیکن کبھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی’۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں