تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

کیا بنجر زمینوں پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے؟

کراچی: ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی موجودہ آبادی 7.7 ارب تک پہنچ چکی ہے جس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں بنجر زمینوں پر پائے جانے والے نباتات کا استعمال اہم ضرورت بن رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی میں آن لائن بین الاقومی سمپوزیم منعقد ہوا جس کا مقصد سائنس کے طلبا، نوجوان سائنسدانوں اور پالیسی سازوں کے درمیان ہیلو فائٹس یا شور زدہ زمین پر پائے جانے والے نباتات کے بطور غیر روایتی فصلوں کے استعمال کے ذریعے مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔

سمپوزیم سے آسٹریلیا کی تسمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سر جے شابالا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی موجودہ آبادی 7.7 ارب تک پہنچ چکی ہے اور مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ 50 برسوں میں فی کس زرعی زمینوں میں ماحولیاتی تغیرات اور غیر معیاری کاشت کاری کے باعث دو گنا کمی واقع ہوئی ہے۔

سعودی عرب کی کنگ عبد اللہ یونیورسٹی کے سائنسدان ڈاکٹر مارک ٹیسٹر نے جینیات کے ذریعے ہیلو فائٹس کو قابل کاشت بنانے کے بارے میں ہونے والی سائنسی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ہیلو فائٹس کی غذائیت خصوصیات میں اضافہ ممکن ہے، جو مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرے گا۔

چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے ڈاکٹر شاؤ جنگ لیو نے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شور زدہ زمینیں بیکار نہیں، بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ان بنجر زمینوں کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ فضائی آلودگی کے تدارک میں بھی معاونت ہوگی۔

جرمنی کی گیسن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہانس ورنرکوئیرو نے گرین سائنس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ایک مسلمہ حقیقت ہیں جن کے اثرات پوری دنیا میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک بشمول پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والی خشک سالی کی زد میں ہیں، جس کا براہ راست اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کاشت کے غیر روایتی طریقوں کو اپنایا جائے جو مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہم ہیں۔

Comments

- Advertisement -