راولپنڈی: جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولاناسمیع الحق کےقتل کےالزام میں گرفتارپرسنل سیکریٹری کو تفتیشی حکام نے بےگناہ قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق راولپنڈی سول جج جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں زیر حراست احمد شاہ کو پیش کیاگیا، پولیس نے ملزم کو جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر پیش کیا۔
پولیس کی ملزم سے تفتیش سے متعلق عدالت میں رپورٹ داخل کرائی جس میں بتایا گیا کہ مولانا سمیع الحق کے قتل میں احمد شاہ ملوث نہیں لہذا اس کا نام مقدمے سے ہٹایا جائے۔
دوسری جانب مولاناسمیع الحق کے صاحبزادوں کی جانب سےعدالت میں بیان حلفی بھی داخل کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ احمد شاہ مولاناسمیع الحق کے قتل میں ملوث نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: مولانا سمیع الحق قتل کیس میں اہم پیشرفت، ڈرائیور کے جھوٹ سامنے آگئے
قبل ازیں 3 جنوری کو مولانا سمیع الحق قتل کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی تھی، پنجاب فرانزک ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقتول کے ڈرائیور و پرسنل سیکریٹری احمد شاہ نے دورانِ تفیش جھوٹ کا سہارا لیا جبکہ تین افراد نے سچ بولا جنہیں رہا کردیا گیا۔
ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب فرانزک ایجنسی نے مولانا سمیع الحق قتل کیس سے متعلق7 افرادکا پولی گرافک اور ڈی این اےٹیسٹ کیا۔ جس کے دوران مولانا سمیع الحق کے ڈرائیور احمد شاہ سے بھی مختلف سوالات کیے گئے۔
دعویٰ کیا گیا تھا کہ احمد شاہ نے تمام سوالات کے جھوٹے جوابات دیے جبکہ جب پرسنل سیکریٹری سے قتل کی منصوبہ بندی سے متعلق بھی سوال کیا گیا تب بھی اُس نے جھوٹ بولا۔
یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ تحقیقات کے دوران ڈرائیور نے اپنے بیانات مستقل تبدیل کیے اور خود کو بے گناہ ثابت کرتا رہا جبکہ تفتیش کے دوران 2 افراد کے فنگر پرنٹس، مقتول کے کمرے سے ملنے والے ڈی این اے کے نمونوں سے میچ کر گئے۔ دورانِ تفتیش 3 افراد نے بالکل سچ بولا کیونکہ وہ بے گناہ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا سمیع الحق: ایک بڑا عالم دین اور معتبر سیاست دان رخصت ہوا
یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر کی 2 تاریخ میں راولپنڈی میں مقیم جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا ، جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئے تھے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مقتول کو چھریوں کے 12 پہ در پہ وار کر کے قتل کیا گیا۔
تحقیقاتی اداروں نے موبائل فون کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ مقتول کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر اہل خانہ نے صاف انکار کردیا تھا جبکہ تفتیشی ٹیم نے مولانا سمیع الحق کے دو ملازمین کو بھی حراست میں لے کر اُن سے پوچھ گچھ کی تھی۔
دوران تفتیش کیس میں گرفتار ملازمین نے انکشاف کیا تھا کہ مولانا سمیع الحق سے جان پہچان والے دو افراد ملنے آئے تھے، اکیلے میں بات کرنے کے لیے ان سے وقت مانگا جس کے بعد مولانا نے ملازمین کو گھر سے باہر بھیج دیا تھا۔
ملازمین جب گھر واپس پہنچے تو انہوں نے مولانا سمیع الحق کو خون میں لت پت پڑے ہوئے دیکھا جس کے بعد انہیں اسپتال منتقل کیا، ڈاکٹرز کے مطابق مولانا اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ چکے تھے۔