لاہور: فیصل آباد کے تھانے ڈی ٹائپ کالونی میں 12 برس بعد سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق مقدمہ متاثرہ شہری کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں قتل اور دھماکا خیز مواد یکٹ سمیت پانچ دفعات شامل کی گئی ہیں۔
متاثرہ شہری نے درخواست میں مؤقف اختیار کیاکہ بھارتی عدالت سے انصاف نہ ملنے پر مقدمہ درج کرایا، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے شہید ہوئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی عدالت نے اقبالِ جرم کے باوجود سوامی اسیم نند، راکیش شرما، کمال چوہان اور راجندر نامی دہشت گردوں کو بری کردیا۔ متاثرہ شہری نے اپیل کی ہے کہ ملزمان کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لایا جائے۔
مزید پڑھیں: سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس: ’’ میرے پانچ بچے سامنے جل کر مرے‘‘
بھارت کی سپریم کورٹ مارچ میں دھماکوں کے مرکزی کردار سوامی اسیم آنند سمیت چار ملزمان کو بے گناہ قرار دے کر بری کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس اٹھارہ فروری دو ہزار سات کا وہ سیاہ دن جب کچھ انتہا پسند ہندوؤں نے پاکستان آنے والی ٹرین کو آگ لگادی تھی۔ واقعے میں اڑسٹھ افراد جاں بحق جبکہ گمشدہ بھی ہوئے جن کا تاحال سراغ نہ لگایا جاسکا۔
ان ہی میں ایک پاکستانی حافظ آباد کے محمد وکیل نامی بھی شہری شامل تھے جن کی بھارتی حکومت نے پہلے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی پھر ڈی این اے کے بعد تسلیم کیا کہ مرنے والوں میں محمد وکیل شامل نہیں، محمد وکیل کےبیٹیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے والد زندہ ہیں اور بارہ سال سے بھارتی جیل میں قید ہیں۔ بھارتی عدالت نے جب سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کیس کا فیصلہ سنایا تو محمد وکیل کے اہلخانہ کو مقدمہ لڑنے کا موقع نہیں دیا، اس حوالے سے محمد وکیل کے اہل خانہ نے اپیل تھی کہ انہیں بھارت کا ویزہ جاری کیا جائے تاکہ محمد وکیل واپس آ سکیں۔