منیر نیازی اور اے حمید میں بہت سی باتیں ایک ہی رنگ میں تھیِں۔ دونوں خوبرو، خوش لباس اور دونوں حسن و جمال کے عاشق اور دونوں کو خوشبو پسند۔ منیر صاحب شاعر تھے اور حمید صاحب نثر میں شاعری کرتے تھے۔
میں نے منیر صاحب کو بھی اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ بس اتنی خوب صورتی کافی ہے۔ لفظ ’کافی‘ میں ایک تشنگی ہے، یہی ایک ادھوری جگہ ہے جہاں ہمارے خواب جنم لیتے ہیں۔ انسان سے اگر اس کا تخیل چھین لیا جائے تو اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہیں رہتا، اور یہ خواب ہی ہیں جو ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔ ہم پر امکانات کا در وا کرتے ہیں اور ہمیں ایک ان دیکھی دنیا کا نظارہ کرواتے ہیں اور اسی لیے حمید صاحب کو محلوں سے زیادہ ان کے خواب عزیز تھے۔ انہوں نے دنیا کی بدصورتی میں زندگی بسر کرنے کے لیے ایک خوب صورت جواز پیدا کیا تھا، محبت، فطرت اور انسانیت دوستی کا خواب، وہ ’خوابوں کے صورت گر‘ تھے۔ سفاک حقیقت کے درمیان تاریکی میں جہاں کہیں انہیں کسی کرن کی جھلک دکھائی دیتی تو وہ اس سے ایک روشن صبح کے پر بنا لیتے۔ ان کی تحریروں میں قدیم شاعروں، دیوی دیوتاؤں رشیوں اور دشت نوردوں کے نوحے ان کی نغمہ گری اور ان کے خوابوں کی تاثیر ہم پر ایک سحر طاری کرتی ہیں۔
ان کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی۔ بہت سالوں بعد میں جب میں نے ٹی وی پر اسکرپٹ پروڈیوسر کی ملازمت شروع کی تو تقریباً روز ہی میری حمید صاحب سے ملاقات رہتی۔ ان کے ساتھ ہمیشہ ان کا قریبی دوست نواز ہوتا جو پنجابی کا بڑا اعلی لکھاری تھا۔ ’شام رنگی کڑٰی‘ اس کی کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ میرے کالج کا دوست اور ٹی وی پروڈیوسر نصیر ملکی بھی زیادہ وقت میرے ہی کمرے میں رہتا۔ اس کی بھی ان سے بہت گہری دوستی تھی۔ حمید صاحب ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھتے تھے، اس لیے ان کا ہفتے میں تین چار مرتبہ ریڈیو اور ٹی وی کا چکر لگتا رہتا۔ حمید صاحب آتے تو اکثر ان کے ہاتھ میں کوئی پھول ہوتا اور آنکھیں کسی غائب کے نظارے سے مست رہتی۔ گم صم اور رومانٹک۔ اُن کو چائے سے بہت محبت تھی۔ کہتے تھے، ’سرمد یار چاء وچ وی جان ہوندی اے۔‘ چائے آتی تو وہ کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ ان کے لیے چائے دانی ٹی کوزی میں ایک ڈھکی چھپی محبوبہ تھی۔ چائے دم پر آنے تک وہ بھی چپ چاپ کوئی دم پڑھتے رہتے۔ پھر آہستہ سے ٹی کوزی اُتاری جاتی جیسے کوئی اپنی محبوبہ کو بے حجاب کر رہا ہو۔ چائے حمید صاحب کو اور حمید صاحب چائے کو اپنی خوشبو سے سیڈوس کرتے یعنی رجھاتے رہتے۔ حمید صاحب کے ہاتھ نہایت لاڈ سے چائے دانی کو اپنی آغوش میں تھام کر اُسے پیالی میں عریاں کرتے، آہستہ بہت آہستہ۔ چائے بھی جھک کر کہتی اور ذرا آہستہ!
جیسے وہ اپنی چائے ہلکی ہلکی چسکیاں لے کر پیتے، ویسے ہی وہ اپنی کہانی بیان کرتے ٹھہر ٹھہر کر۔ وہ کسی تجربے یا واقعے کو ہلکے شرابی کی طرح غٹاغٹ نہ پی جاتے بلکہ اہلِ ظرف کی طرح دیر تک شیشے میں تندیٔ صہبا کا ارغوانی دیدار کرتے اور پھر مزے لے لے کر پیتے۔
(پاکستان کے معروف فکشن رائٹر، ڈرامہ اور سفرنامہ نویس اے حمید سے متعلق سرمد صہبائی کی یادوں سے ایک جھلک، سرمد صہبائی شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں)