اے حمید صاحب اسلام آباد آئے تو میں شام کو انہیں اپنے ایک دوست کے گھر پارٹی میں لے گیا۔ میری ان سے کئی سالوں کے بعد ملاقات ہو رہی تھی اس لیے کہ جب سے میری ٹرانسفر پنڈی/ اسلام آباد کر دی گئی تھی میرا لاہور آنا جانا بہت کم ہو گیا تھا۔
اس شام حمید صاحب اپنے کارڈرائے کے ہلکے براؤن سوٹ میں تھے، اور ان سے ایوننگ ان پیرس کی خوشبو آرہی تھی۔ پارٹی میرے ایک دوست کے گھر میں تھی۔ دروازے کے باہر سیڑھیوں پر دیے جل رہے تھے، اندر مدھم روشنیوں میں خوش لباس مہمان خوش گپیاں کر رہے تھے۔ بیک گراؤنڈ میں ہلکی سی جاز کی موسیقی چل رہی تھی۔ ایک طرف بار تھی جہاں ہر قسم کے ولایتی مشروبات رکھے تھے، میں نے حمید صاحب کو اپنے دوستوں سے ملایا اور انہیں ان کی پسند کا مشروب پیش کیا، کچھ دیر بعد رقص کی موسیقی شروع ہو گئی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس رومانٹک ماحول میں رقص کرنے لگے، ان میں کئی غیرملکی جوڑے بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی ایک جرمن خاتون دوست کو حمید صاحب سے ملوایا اور سے کہا تم حمید صاحب کے ساتھ رقص کرو۔ حمید صاحب بہت دیر تک شرماتے اور جھجکتے رہے لیکن پھر میرے اور خاتون کے اصرار پر اس کے ساتھ ڈانس فلور پر چلے گئے۔ میں انہیں رقص کرتے ہوئے دیکھتا رہا، وہ آنکھیں بند کیے موسیقی کی دھن پر ہلکے ہلکے جھوم رہے تھے جیسے کوئی بچہ نیند میں خواب دیکھ رہا ہو۔ جب وہ واپس آئے تو میں نے کہا ’حمید صاحب یہ کیا؟ صرف ایک ڈانس؟ آپ تو آج ساری رات رقص کریں اور جی بھر کر پیئیں اور پلائیں۔ سرگوشی میں کہنے لگے، ‘بس سرمد یار میرے لیے اینی خوبصورتی کافی اے ’ (بس سرمد یار میرے لیے اتنی خوبصورتی کافی ہے)۔
مجھے یک دم ان سے اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی۔ میں جب دسویں جماعت میں پڑھتا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے بڑے بھائی جاوید کے گھر واہ کینٹ چلا جاتا تھا۔ واہ کینٹ ایک بہت خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا، آبادی کم تھی، آسمان بغیر کسی آلودگی کے نیلا دکھائی دیتا تھا اور رات کو ستارے پوری آب و تاب سے چمکتے تھے۔ ماحول بڑا رومانٹک تھا۔ بھائی جان کے گھرمیں بہت سی کتابیں تھیں، منٹو، بیدی، کرشن چندر اور اے حمید کی لکھی ہوئیں، میں ان سے سب سے تقریباً نا آشنا تھا۔ اس لیے کہ ہمارے اپنے گھر میں ان میں سے کسی کی بھی کوئی کتاب نہیں تھی۔ منٹو صاحب نے اپنی کتاب ’اوپر نیچے اور درمیان‘ بھائی جان کو تحفے میں دی تھی۔ اس پر منٹو صاحب نے لکھا تھا، ’پیارے جاوید میں تو نہ اوپر ہوں نہ نیچے اور نہ درمیان تم جہاں کہیں بھی ہو خوش رہو‘۔ میں نے ان ادیبوں کو پڑھنا شروع کر دیا، لیکن میرے لیے یہ سب ذرا زیادہ ہی بالغ تھے، سوائے اے حمید کے۔ میں ان کی کوئی بھی کتاب پڑھتا تو مجھ پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہونا شروع ہوجاتی، ایسی منظر نگاری، ایسا رومانس اور پھر میرے لڑکپن کا زمانہ۔ حمید صاحب کی تحریروں نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا۔ اسی زمانے میں جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ مری گیا تو مجھے ساتھ والے بنگلے میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو گیا، یہ میرا اوّلین عشق تھا۔ میں نے اسے جو پہلا خط لکھا اس میں اے حمید کے رومانوی افسانوں کی بازگشت تھی۔
جب میں لاہور واپس آیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میری حمید صاحب سے ملاقات ہو جائے گی۔ جالی صاحب ایک مصور تھے جو ادبی کتابوں اور رسائل کے ٹائٹل بناتے تھے، انہوں نے اے حمید کی کچھ کتابوں کے بھی ٹائٹل بنائے تھے۔ میری ان سے جانے کب اور کیسے دوستی ہو گئی تھی۔ میں جب بھی انار کلی سے گزرتا ان کے دفتر ضرور جاتا۔ ایک دن دیکھا کہ ان کے دفتر میں حمید صاحب بیٹھے ہیں۔ مجھے ان دنوں اپنے پسندیدہ شاعروں ادیبوں سے آٹو گراف لینے کا شوق تھا چنانچہ میں نے حمید صاحب سے بھی اس کی فرمایش کی۔ انہوں نے میری آٹو گراف پر لکھا۔ ’جھونپڑیوں میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھنا بہتر ہے اس سے کہ آدمی محلوں میں رہے اور اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہ ہو۔‘ حمید صاحب اسلام آباد کی پارٹی میں اس رات شاید مجھے یہی کہنا چاہتے تھے کہ اگر وہ ساری رات رقص کرتے رہے اور پیتے پلاتے رہے تو ان کے پاس خواب دیکھنے کو باقی کچھ نہیں بچے گا۔
(شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار سرمد صہبائی کی یادوں سے چند پارے)