اسلام آباد: سابق سیکریٹری جنرل فافن سرور باری نے کہا ہے کہ 2013 کے انتخابات میں بہت گڑبڑ ہوئی تھی، فافن کے رہنما کے خلاف نشان دہی پر 14 مقدمات درج کر دیے گئے تھے۔
تفصیلات کے مطابق فافن کے سابق سیکریٹری جنرل سرور باری نے بھی انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال کی حمایت کر دی، انھوں نے ہفتے کو پریس بریفنگ میں ٹرسٹ فار ڈیمو کریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی (ٹی ڈی ای اے) کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
انھوں نے کہا فافن کا نام استعمال کر کے مرضی کی رپورٹیں بنائی جاتی ہیں، 2013 کے انتخابات میں بہت گڑ بڑ ہوئی تھی، فافن کے رہنما کے خلاف نشان دہی پر چودہ مقدمات درج کیے گئے، اور جس کے خلاف مقدمہ درج ہوا وہ نجم سیٹھی سے معافی مانگ آیا۔
سرور باری نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انسانی عمل دخل تو محدود ہوگیا ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ای وی ایم کی آبزرویشن کیسے ہوگی، کیوں کہ مشاہدہ کار تنظیموں کا مشاہدہ کرنے والا کوئی نہیں ہے، ان کا ڈیٹا کس بنیاد پر اور کتنا درست ہے، اسے کوئی چیک کرنے والا نہیں۔
انھوں نے کہا ڈسکہ کا ضمنی الیکشن بدنام زمانہ تھا جس میں ہر حد پار کی گئی، فافن کی تنظیموں کو فنڈنگ ٹی ڈی ای اے کے ذریعے ہوتی ہے، ٹی ڈی ای اے نے الیکشن کمیشن افسران اور ان کی فیملی کے سفری اخراجات برداشت کیے، اس نے یہ اپنے بورڈ کی اجازت کے بغیر کیا، اس لیے مشاہدہ کاروں پر بھی مشاہدہ کار ہونے چاہیے۔
سابق سیکریٹری نے کہا ٹی ڈی ای اے نے 2013 الیکشن کے فارم 14 الیکشن کمیشن سے لے کر بھرے، جہاں سے مشاہدہ کاروں کو فارم 14 نہیں ملے اس حلقے کا تجزیہ نہیں کرنا چاہیے تھا، سال 2013 کے انتخابات میں بہت گڑبڑ ہوئی تھی، کئی فارم 14 سادہ کاغذ پر تھے اور کئی پر گنتی ہی غلط تھی، ایاز صادق کے حلقے میں کئی پولنگ اسٹیشنز پر ٹرن آؤٹ سو فی صد سے زیادہ تھا، فافن کے رہنما نے نشان دہی کی تو ان کے خلاف 14 مقدمات درج کیے گئے، جس کے خلاف مقدمہ درج ہوا وہ چپکے سے نجم سیٹھی سے معافی مانگ آیا، یہ ٹی ڈی ای اے کا کردار ہے۔
انھوں نے کہا دھاندلی جوڈیشل کمیشن نے ٹی ڈی ای اے کی متوازی گنتی کی بنیاد پر رپورٹ دی تھی، فافن کو ٹی ڈی ای اے سے الگ ہونا پڑے گا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا مشاہدہ کرنا ہمارا پہلا کام ہوگا، لوگوں کی ووٹ دینے کی آزادی کا بھی مشاہدہ کریں گے، دنیا میں صرف 23 ممالک میں ہی ووٹر اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکتا ہے، برطانیہ، جرمنی، امریکا، بھارت میں بھی اب ووٹر مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتے، جب کہ ہر ووٹر کا اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنا ہی فری الیکشن ہوتا ہے، ورنہ الیکشن شفاف نہیں ہوتا۔
سرور باری کے مطابق بھارت کے سابق الیکشن کمشنر نے لکھا کہ ووٹر پر اثر انداز ہونے کے لیے 40 ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں، بھارت میں مخالف امیدوار کے مضبوط حلقے میں لوگوں کو پیسے دے کر ووٹ نہ ڈالنے کا کہا جاتا ہے، بعض حلقوں میں ووٹ توڑنے کے لیے زیادہ امیدوار بھی کھڑے کیے جاتے ہیں، این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں مردوں نے خواتین کے شناختی کارڈ چھین لیے تھے۔
انھوں نے کہا ہم تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقع ملنے کا بھی مشاہدہ کریں گے، پولنگ عملے کا معاشی و معاشرتی بیک گراؤنڈ بھی دیکھیں گے، ہر رکن اسمبلی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی مرضی کے ٹیچر لگوائے جائیں، سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ دینے کے عمل کا کبھی کسی نے مشاہدہ نہیں کیا۔
سرور باری نے کہا کہ قانون سازی کے عمل پر 204 خاندانوں کی اجارہ داری ہے، الیکشن آبرویشن کے حوالے سے بھی ریفارمز کی ضرورت ہے، یہ سپریم کورٹ تھی جس نے اوورسیز پاکستانیوں کو 2017 میں ووٹ کا حق دینے کا حکم دیا تھا۔