تازہ ترین

دوپٹے سے پٹے تک

’’اے ہے! یہ نگوڑا مارے دو ڈھائی گز کے دوپٹے تم سے نہیں سنبھلتے؟‘‘

’’غضب خدا کا، تمام مردوں کا سامنا ہو رہا ہے اور تمھارے سر پر دوپٹہ تک نہیں ٹکتا۔‘‘

’’الہیٰ خیر! یہ دوپٹہ ہے یا گلے کا ہار؟‘‘

’’ارے بی بی سَر پر دوپٹہ تو ڈالو۔‘‘

یہ تیر اُن جملوں میں چند ہیں، جو ہم بچپن سے لے کر آج تک دوپٹہ اوڑھنے کے سلسلے میں بطور ہدایت، تنبیہ اور سرزنش کے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے کھاتے چلے آرہے ہیں، اس لئے یہ تیر بھی بچپن ہی سے دوپٹے کی طرح چمٹ کر ہمیشہ ہمارے گلے کا ہار بنے رہے، خاص کر دادی اماں کی کڑی نظریں ہر وقت ہمارے دوپٹے کی نگرانی کرتی رہتیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم نے دادی اماں کا دوپٹہ ہمیشہ ان کے سرہانے رکھا پایا، جس کے ایک کونے سے وہ ’پرس‘ کا کام لیتی تھیں اور خود عام طور پر دوپٹے سے بے نیاز صحن، آنگن یا لان میں گھوما کرتیں۔ گھر کی بزرگ خواتین کے نزدیک دوپٹے کا واحد مقصد سَر پوشی ہے، اور اس کے تحت وہ احکامات صادر کرتی رہتی ہیں، لیکن جوں جوں ہماری عمر بڑھتی گئی اس کے دوسرے مقاصد بھی معلوم ہوتے گئے۔ دوپٹے کے نت نئے فوائد کے آگے ہم نے اس کے اصل مقصد کو نظر انداز کر دیا، جسے ہماری نالائقی اور سرکشی سمجھا گیا۔ اب آپ ہی بتائیے، جب ان ہی بزرگوں نے ہمیں دوپٹے کے اتنے سارے مصرف سکھا دیے ہوں، تو پھر اس سے محض ایک ہی کام سَر ڈھانکنا، جس سے بظاہر کوئی خاص تو کیا، عام فائدہ بھی نظر نہیں آتا، کیوں لیں۔

دوپٹے کا نام سنتے ہی آپ کی نظروں میں رنگ برنگے دوپٹے لہرانے لگے ہوں گے، نیلے پیلے، اودے ہرے، سرخ و سبز، زرد و دھانی دوپٹے۔ شانوں سے ڈھلکتے، سروں سے پھسلتے ریشمی دوپٹے، کسی کے رخِ روشن کے گرد ہالہ کئے پاکیزہ دوپٹے۔

آپ ہوں، ہم ہوں یا کوئی اور، دوپٹے کی مقبولیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ میر کے زمانے میں بھی اگر دوپٹے اس طرح مقبول ہوتے تو ان کا شعر یوں ہوتا۔

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان دوپٹوں کے سب اسیر ہوئے

آج کل تو اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گلیوں، سڑکوں، بازاروں، کلبوں، ہوٹلوں، کالجوں، سنیما گھروں اور کافی ہاؤسوں غرضیکہ ہر جگہ لہراتے، سرسراتے، اور جادو جگاتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو آدمی چکرا جاتا ہے کہ ترقی لڑکیوں نے زیادہ کی ہے، یا دوپٹوں نے، اور مقبول لڑکیاں زیادہ ہیں یا دوپٹے۔

دوپٹہ ململ کا بھی ہوتا ہے اور آبِ رواں کا بھی، نائلون کا بھی ہوتا ہے اور ڈیکرون، ٹیریلین اور شیفون کا بھی ہوتا ہے اور جالی کا بھی، چھینٹ کا بھی ہوتا ہے اور پاپلین کا بھی، غرضیکہ دنیا کے ہر کپڑے کا دوپٹہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی خاص کپڑا مخصوص نہیں ہوتا ہے، گھر میں رکھی ہوئی مچھر دانی کی جالی کا بھی دوپٹہ بنا سکتی ہیں، اور پائجامہ قمیص کے کپڑے کو بھی کام میں لا سکتی ہیں، بلکہ کھادی تک کا دوپٹہ بنا سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں انار کلی لیلیٰ مجنوں آنکھ کا نشہ اور جھنک جھنک پائل باجے قسم کے دوپٹوں کا ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اول الذّکر دوپٹوں کا ہونا تو کچھ سمجھ میں آنے والی بات ہے بھی کہ شاید انار کلی نے اس کپڑے کا دوپٹہ اوڑھا ہو یا مجنوں نے لیلیٰ کو اس خاص کپڑے کا دوپٹہ بطور تحفہ پیش کیا ہو، لیکن آنکھ کا نشہ اور جھنک جھنک پائل باجے مارکہ دوپٹوں کی بات دل کو نہیں لگی۔

خیر، ناموں میں کیا رکھا ہے، کام دیکھئے، تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ دوپٹہ اپنے اندر وحدت میں کثرت کا اثر رکھتا ہے یعنی یہ ڈھائی تین گز کا ٹکڑا سیکڑوں کام سرانجام دیتا ہے، اس کا ایک فائدہ تو بہت پرانا ہے کہ یہ سر کندھے اور جسم کے بالائی حصے کو اچھی طرح ڈھک سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے چادر کی طرح اوڑھ کر گھر سے بھی نکلا جا سکتا ہے۔ دن میں مکھیوں سے اور رات میں مچھروں سے بچنے کے لئے اسے اوڑھ کر سویا جا سکتا ہے۔ ہوشیار خواتین باورچی خانہ میں صفائی کے لئے صافی رکھنے کی زحمت نہیں کرتیں، اور یہ کام بھی دوپٹہ سے لے لیتی ہیں۔ ادھر ہانڈی جلی یا دودھ ابلا اور انہوں نے جھٹ پتیلی اتار لی۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد اب کون تولیہ تلاش کرتا پھرے، جھٹ دوپٹہ سے پونچھ لیا۔ ننھے کی ناک بہہ رہی ہو تو اسے صاف کرنے کے لئے کوئی میلا یا صاف کپڑا تلاش کرنے سے آسمان ان کے لئے، دوپٹے ہی سے ان کی ناک پونچھ دیتی ہے۔

پلیٹیں دوپٹے سے بہت آسانی سے پونچھی جاسکتی ہیں۔ شربت بناتے جلدی میں باریک کپڑا نہ ملے تو دوپٹے کے کونے سے فوراً شکر چھان لی۔ اس دوپٹہ کا ایک کونا آپ کی چلتی پھرتی صندوقچی (پیسہ رکھنے والی) کا کام بھی دیتا ہے، جس میں پیسوں کے علاوہ چھوٹے موٹے ضروری کاغذات، بل اور سودے کا حساب وغیرہ گرہ میں بندھا ہوتا ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ نہ چوری کا اس کو کھٹکا، نہ چابی کھونے کا ڈر، نہ صندوقچی غائب ہونے کا خوف۔ چابی کی بات پر یاد آیا، کہ چابیاں کھویا بہت کرتی ہیں، اس لئے اسے بھی ایک کونے میں باندھ لیا جائے تو وہ محفوظ بھی رہیں گی، اور دوپٹے کی افادیت میں چار چاند لگ جائیں گے۔

دوپٹے کا آنچل جھاڑن کا کام بھی خوب دیتا ہے۔ گھر گرہست خواتین دوپٹے سے میز کرسیاں اور ان کے شوہر اپنے چشمے کو شیشے صاف کرلیا کرتے ہیں، کبھی کبھی یہ بزرگوں کی ڈانٹ پھٹکار سے بچانے میں بڑی مدد دیتا ہے، مثلاً بڑوں کے سامنے اگر ہنسی روکے نہ رکے تو منہ میں دوپٹہ ٹھونس کر کھن کھن۔۔۔ کی آواز کو بخوبی روکا جاسکتا ہے اس طرح جواب نہیں سوجھتے وقت اگر اس کا کونا منہ میں دبا لیا جائے تو دماغ تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔

دو دلوں کو باندھنے کے لیے بھی دوپٹہ کی گرہ حرفِ آخر سمجھی گئی ہے۔ آپ نے بھی مار دھاڑ والی فلموں میں دیکھا ہوگا یا کہانیوں میں پڑھا ہوگا کہ کس طرح کسی نوجوان اجنبی کے زخمی ہونے پر اچانک پردۂ غیب سے ایک حسینہ نمودار ہوتی ہے اور بلا کچھ سوچے سمجھے دوپٹہ کی ایک لمبی چٹ پھاڑ کر اس کے پٹی باندھ دیتی ہے، پٹی کی گانٹھ کے ساتھ دو دل بھی بندھ جاتے ہیں۔ دوپٹہ بدل کر بہن بنانے کارواج پہلے بہت تھا، مگر خراب دوپٹے کے بدلے اچھے دوپٹے اینٹھ لینے کی وجہ سے یہ رسم دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔

دوپٹہ کی ایک قسم اور بھی ہوتی ہے اور وہ ہے رسی کی طرح بٹی ہوئی اوڑھنی جسے عرفِ عام میں چنا ہوا دوپٹہ کہتے ہیں، یہ دوپٹہ گلے کا ہار بنا رہتا ہے۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے کسی طرح کی لاپروہی نہیں برتی جاسکتی، کیوں کہ گلے کا ہار جو ٹھہرا۔ یہ ہار ضرورت پڑنے پر پھانسی کے پھندے کا کام بھی دے سکتا ہے، اس کی اس خصوصیت کا ہمیں پچھلے ہفتے پتہ لگا جب پڑوس کی ایک ناکام محبت لڑکی نے اپنے دوپٹے سے پھانسی لگا کر اپنی محبت کے افسانے کو اچھا خاصا اسکینڈل بنا دیا۔ امتحان میں ناکامی، محبوب کی بے وفائی، محبت میں ناکامی، احساسِ حماقت کے بعد اور جہیز کا مطالبہ پورا نہ کرسکنے کی صورت میں اکثر لڑکیوں کو خودکشی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس صورت میں ان بے چاری لڑکیوں کے لئے دوپٹہ کا نسخہ بہت آسان ہے، کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

ہمیں افسوس ہے کہ دوپٹہ جیسی نعمت سے اکثر ملکوں کی خواتین محروم ہیں۔ افسوس تو ان مشرقی میم صاحبات پر بھی ہے جو اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھنا پسند نہیں کرتیں، اور بقول نانی اماں کے ’’کم بختیں ننگی بچی گھوما کرتی ہیں،’’ اور اس سے زیادہ افسوس ان فیشن ایبل لڑکیوں اور ٹیڈیوں پر ہے جنھوں نے اس کا طول و عرض کم کرتے کرتے اسے دوپٹے سے پٹہ بنا دیا ہے اور جس کا عرض گھٹاتے گھٹاتے ایک بالشت بلکہ چارانگل تک پہنچا چکی ہیں۔ جس طرح چوٹی کے مقابلے میں ’پٹے‘ فیشن میں آتے تھے اسی طرح اب دوپٹہ کی جگہ پٹہ (کتے یا بلی کا نہیں) لے رہا ہے لیکن اس سے نہ تو سر پوشی کا کام لیا جا سکتا ہے اور نہ ستر پوشی کا، اور نہ ہی ہزاروں دوسرے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں، اس دوپٹے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ بحث بھی اب آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہے، اس لئے اسے چھوڑیئے، کیوں کہ ہمیں تو کام دیکھنا ہے، اور اس کا کام بھی کسی حالت میں دوپٹہ کے کاموں سے کم نہیں، اس کا رنگا رنگ کام بھی دیکھئے۔

یہ ایجاد کیوں کیا گیا، اس کی ایک وجہ ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ اس سے مرہم پٹی کا کام بہت آسانی سے لیا جا سکتا ہے۔ لڑکیاں اب گھروں میں بیٹھ کر چولھے چکی میں پڑنا پسند نہیں کرتیں، اور ناک میں نتھ کی نکیل پڑنے تک کھیل کود، پنکنک، آؤٹنگ وغیرہ میں انہیں لڑکوں کے برابر سوراج اور مساوات کا درجہ حاصل ہے، اس لئے ہاتھ پیر ٹوٹنے یا موچ آنے کی صورت میں یہ دوپٹہ بڑا کام آتا ہے۔ ادھر کھیل کود یا دھینگا مشتی میں کسی لڑکی کی ہڈی پسلی ایک ہوئی اور محبت دوپٹہ سے بنڈیج کا کام لیا گیا۔

اس دوپٹہ کا ایک مفید اور عام استعمال آنکھ مچولی کے دوران آنکھوں پر باندھنے یا بستر باندھنے کے لئے رسی نہ مل سکے، تو یہ کام بھی دوپٹہ بخوبی انجام دے سکتا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ اتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے کہ اس کا جسم پر ہونا نہ ہونا برابر ہے، اس کا بنانا اس قدر کم خرچ بالانشیں ہوتا ہے کہ جمپر یا پائجامہ کا کپڑا بچا کر اسے تیار کیا جاتا ہے۔ اس گرانی کے زمانہ میں اس طرح کافی کم خرچ یا بالکل ہی خرچ نہ کرکے اسے بنایا جا سکتا ہے۔

لیجئے، اپنے تجربات بتاتے بتاتے نہ جانے کب میرا دوپٹہ شانوں سے پھسل کر گود میں آگیا اور خالہ جان کی چیختی ہوئی آواز آرہی ہے، ’’نوج! اس جیسی کوئی بے خبر لڑکی ہو، جسے آج تک دوپٹہ اوڑھنے کا ڈھنگ نہ آیا۔‘‘

(بھارت کی معروف مزاح نگار سرور جمال کی ایک شگفتہ تحریر)

Comments

- Advertisement -