سعودی خاتون مضاوی بنت محمد ضاوی نے کہا ہے کہ 62 برس قبل شاہ سعود بن عبدالعزیز کا تحفہ ہمارے خاندان کے لیےاعزاز بن گیا ہے۔
سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی خاتون نے کہا کہ شاہ سعود بن عبدالعزیز بیرون مملکت علاج کے بعد 1960 میں دارالحکومت ریاض پہنچے تھے۔ اس موقع پر تلواروں کا روایتی رقص العرضہ منعقد ہوا تھا۔ اس وقت میرے والد محمد بن ضاوی ریاض محکمہ پاسپورٹ کے ڈائریکٹر تھے۔
العرضہ میں شرکت کے لیے ان کے پاس تلوار نہیں تھی، شاہ سعود نے دیکھا کہ محمد بن ضاوی تلوار کے بجائے اپنے قلم کو تلوار کے انداز میں حرکت دے کر تلوار کے رقص میں حصہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے فوراً انہیں ایک شاہی تلوار دی اور یہ بات ہمارے لیے باعث اعزاز ہے، وہ تلوار آج تک ہمارے خاندان میں محفوظ ہے۔
مضاوی نے بتایا کہ ان کے والد کے پاس مختلف تقریبات میں شاہ سعود کی دی ہوئی 5 تلواریں تھیں، ان میں سے بعض کے ہینڈل سونے کے تھے، تاہم ان میں سے ایک تلوار بہت خاص ہے جو شاہ سعود نے بیرون مملکت علاج کے بعد ریاض میں ہونے والے جشن صحت کے موقع پر والد کو دی تھی۔
مضاوی بنت محمد ضاوی نے بتایا کہ یہ تلوار میرے والد کے پاس آخری وقت تک رہی۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ سن رسیدگی کی وجہ سے تلواروں کے رقص میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، ہمارے خاندان میں قومی تقریبات پر یہ تلوار استعمال کی جاتی رہی ہے۔ شادی کے موقع پر والد نے یہ تلوار مجھے تحفے میں دی تھی جسے میں اپنے پاس محفوظ کیے ہوئے ہوں، اس کی حیثیت بے حد انمول ہے۔
مضاوی نے بتایا کہ اب یہ تلوار میری چھوٹی بیٹی ھیفا الرشید کے پاس ہے، وہ بھی اسے جی جان سے عزیز رکھتی ہے، اس تلوار میں ایک سرخ اور دوسرا زرد رنگ کا یاقوت ہے۔ اس کا ہینڈل ہاتھی دانت کا ہے جبکہ اس کا بارڈر عربی اور اسلامی تحریروں سے مزین ہے۔
سعودی خاتون نے بتایا کہ اس کے علاوہ شاہ سعود نے میری والدہ کو خالص سونے کی سوئس گھڑی کا تحفہ دیا تھا۔ یہ بھی ہمارے خاندان کیلئے بڑا فخر ہے، یہ تمام قیمتی اشیاء ہمارے گھر میں محفوظ ہیں۔