دنیا بھر میں شاید پاکستان کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہو جہاں خواتین پر ظلم و ستم ہوتا ہو، یا جہاں دہشت گردی پنپتی ہو، لیکن ایک سعودی خاتون کے لیے پاکستان، ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوا۔
یعقوب نامی یہ خاتون 6 سال قبل سعودی عرب سے پاکستان آئیں۔ سعودی عرب کے سخت قوانین کو چھوڑ کر، جو خواتین پر زیادہ شدت سے لاگو ہوتے ہیں، جب وہ پاکستان آئیں تو انہیں حقیقی معنوں میں آزادی کا احساس ہوا۔
بقول یعقوب کے انہیں زندگی میں پہلی بار علم ہوا کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسے یہاں اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کا موقع بھی ملا، جو گلوکاری کرنا تھا۔
یعقوب نے اس یونیورسٹی سے اپنی گلوکاری کا آغاز کیا جہاں اس نے داخلہ لیا۔ وہ وہاں کمپیوٹر سائنسز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھی۔
بہت جلد یعقوب کا رابطہ پاکستانی موسیقی کے شعبہ میں سرگرم اور نمایاں افراد سے ہوگیا اور اسے ٹی وی کی مشہور میوزک سیریز نیسکیفے بیسمنٹ میں پس پردہ گلوکار کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔
اس کے بعد یعقوب نے اپنے طور پر گلوکاری شروع کردی۔
موسیقی لوگوں کے درمیان فاصلے مٹانے میں معاون *
یعقوب بتاتی ہے، ’میں جانتی تھی کہ میری آواز اچھی ہے اور میں گا سکتی ہوں۔ لیکن میں نے اسے بطور کیریئر اپنانے کا کبھی نہیں سوچا۔ میں جس معاشرے کا حصہ تھی وہاں شوبز میں ہونا نہایت ہی معیوب بات تھی‘۔
انہوں نے ایک معروف برطانوی میوزک بینڈ کولڈ پلے کے ایک گانے کو دوبارہ گایا اور اسے بے پناہ پذیرائی ملی۔
یعقوب کا کہنا ہے کہ اب وہ کور سونگز (پہلے سے گائے ہوئے گانوں کو نئے انداز سے گانے) کا سلسلہ ختم کر چکی ہے۔ اب وہ اپنی موسیقی ترتیب دے رہی ہے۔
یعقوب کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کے خاندان نے اس پر زور دینا شروع کردیا کہ وہ واپس سعودی عرب لوٹ آئے تاہم وہ انہیں اس بات پر منانے میں کامیاب رہی کہ وہ مزید کچھ عرصہ یہیں رہنا چاہتی ہے۔
اس نے بتایا کہ اس کے خاندان اور خاص طور پر والد نے اس کی بھرپور حمایت کی اور کبھی اسے اپنے خواب کی تکمیل سے نہیں روکا۔ ’میں نے اپنے والد سے ہزاروں دفعہ پوچھا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں گانا چھوڑ دوں؟ اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو میں ایسا ہی کروں گی لیکن ان کا جواب ہر بار نفی میں ہوتا ہے‘۔
یعقوب فی الحال پاکستان میں ہی ہے اور موسیقی کی دنیا میں اس کا سفر جاری ہے۔