دارالحکومت اسلام آباد میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مارچ کرنے پر جماعت اسلامی کی قیادت سمیت طلبہ و طالبات کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
درج مقدے میں دھمکیوں، ریاست مخالف تقاریر اور قانون توڑے کی دفعات شامل ہیں۔ ایف آئی آر میں رہنما جماعت اسلامی پاکستان سابق سینیٹر مشتاق احمد خان، کاشف چوہدری اور نصراللہ رندھاوا نامزد ہیں۔
علاوہ ازیں، اسلامی یونیورسٹی کے طالب علم حماد طلحہ، ناظم اسلامی جمیعت طلبہ مصہب روحان، ناظم جمعیت پنجاب تصور کاظمی اور حمیرہ طیبہ بھی مقدمے میں نامزد ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ نامزد افراد نے 500 لوگوں کے ہمراہ جلوس نکالا جبکہ جلسے جلوس کے حوالے سے دفعہ 144 نافذ ہے، شرکا کو منتشر ہونے کا کہا گیا تھا۔
متن کے مطابق شرکا سہروری روڈ سے ریڈ زون کی طرف گئے اور اندر داخل ہونے کی کوشش کی، شرکا نے حصار کو توڑا اور پولیس سے ہاتھا پائی کی۔
اس میں مزید کہا گیا کہ شرکا نے سہروردی روڈ پر دھرنا دیا اور عوام کیلیے مشکل پیدا کی، نامزد افراد نے ریاست مخالف تقاریر کیں اور دھمکیاں دیں۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے مقدمہ درج ہونے پر اپنے ردعمل میں فیس بک پر جاری بیان میں کہا کہ 15 لاکھ محصورین غزہ کو بچانے کیلیے غزہ یکجہتی مارچ، فلسطینیوں کی نسل کشی اور اس میں ملوث امریکا کے خلاف احتجاج کیلیے امریکی سفارتخانے تک جانے کی پاداش میں وفاقی حکومت اور اسلام آباد پولیس کی طرف سے ایک اور مقدمہ درج کیا گیا۔
مشتاق احمد خان نے کہا کہ کل پولیس نے بدترین لاٹھی چارج اور تشدد کیا لیکن اس کے باوجود ’سیو غزہ‘ دھرنا اپنے پروگرام کے مطابق صبح تک جاری رہا، رفع میں 15 لاکھ محصورین کو بچانے، اسرائیل کی انسانیت کے خلاف جرائم اور امریکا کی فلسطینیوں کی نسل کشی کی سرپرستی، پاکستانی حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور سہولت کاری کے خلاف احتجاج جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹے مقدمات، قید و بند، لاٹھی گولی اور تشدد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ رہنما جماعت اسلامی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے ایف آئی آر کی کاپی بھی جاری کی۔