حالیہ مون سون کے موسم میں سیلابی صورتحال کے بعد ایشاء کا سوئٹزرلینڈ سوات تباہ ہوکر رہ گیا ہے, کسی نے دریا میں کرشنگ پلانٹ لگا لیا تو کوئی پرتعیش ہوٹل تعمیر کر بیٹھا۔
اس حوالے سے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اسی بات کا پہلے سے خدشہ تھا اسی لئے دریاؤں کے کنارے غیرقانونی مائننگ کے خلاف ایکشن پر زور دے رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2010سیلاب کی تباہی سب کے سامنے تھی لیکن سب نے آنکھیں بند رکھیں, دریاؤں کے بدلے ڈیم بنانا کہا کا انصاف ہے۔
ماحولیاتی آلودگی اور دریاؤں کی تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیئے کہ حالیہ سیلاب نے مالاکنڈ ڈویژن اور صوبے کے دیگر اضلاع میں تباہی مچادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اسی بات کا خدشہ تھا کیونکہ کسی نے دریا میں ہوٹل بنالیا تو کسںی نے کرشنگ پلاٹ لگایا ہوا ہے، ایشیاء کے سوئٹزرلینڈ سوات تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ محکمہ آبپاشی، محکمہ معدنیات اور ٹی ایم اوز نے بیڑہ غرق کردیا ہے, سب نے آنکھیں بند کر رکھی تھی، نشاندہی کے باوجود اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟?
چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہزاد بنگش سے استفسار کیا ہم نے متعدد مواقع پر آپ لوگوں کو ہدایت جاری کی کہ دریاؤں کی بحالی کے لئے اقدامات اٹھائیں دریا غیرقانونی کھدائیوں کی وجہ سے تباہ ہوگئے ہیں۔
چیف سیکریٹری شہزاد بنگش نے عدالت کو بتایا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے، عدالت نے ہماری رہنمائی کی ہے اور ہم اس پر کام کررہے ہیں۔
دریاؤں کی اسسٹمنٹ کے لئے دو بلین روپے پراجیکٹ کی اسٹڈی بھی دی گئی ہے حالیہ بارشوں سے اسٹڈی کا عمل متاثر ہوا ہے انہوں نے چار ماہ کا مزید وقت مانگا ہے، سیلاب کے دوران دریا پھیل گئے ہیں بیلٹس بھی بھرگئے ہیں, ریور پروٹیکشن اتھارٹی پر کام ہورہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب کچھ کمیشن مافیاز کی وجہ سے ہورہا ہے 2010 سیلاب سے اس صوبے میں جو تباہی ہوئی وہ سب کے سامنے تھی لیکن پھر بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب آپ کے ساتھ جو افسران موجود ہیں ان کو یقین دہانی کرائیں سیاسی دباؤ کے تحت کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوگا تب یہ افسران بہتر طریقے سے کام کریں گے۔
چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ گزشتہ 10 ماہ میں بہترین افسر کو فیلڈ میں لگایا ہے تاکہ وہ ڈلیور کرسکے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شمائل بٹ نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے کسی افسر پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دریاؤں کے کنارے ہوٹلز کاروبار کی وجہ سے دریا گندگی کا ڈھیر بن گئے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، ایریگیشن کے محکمے نے جو کچھ کیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔
چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ ریور پروٹیکشن اتھارٹی کا پی سی ون تیار ہے اور نسپاک کی اسٹڈی کا انتظار ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل شمائل بٹ نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے چار مقامات کی نشاندہی کی تھی، جس میں سوکی کناری ڈیم, آبپاشی اور دیگر امور شامل تھے اس پر کام ہورہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دریاؤں کے بدلے ڈیم بنانا کہاں کا انصاف ہے روزانہ ہزاروں ٹن بجری دریاؤں سے نکالی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری ایری گیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری ایری گیشن بھی اس میں برابر کا ذمہ دار ہے جو آپ کے محکمے نے کیا وہ قابل افسوس ہے آپ یہ نہ سمجھیں کہ صرف پہلے والے افسران ذمہ دار ہیں آپ بھی اس حوالے سے اپنا کردار ارا کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے تفصیلی حکم جاری کریں گے, عدالت نے دریاؤں کی تحفظ کے لئے اقدامات کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے اگلی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کردی۔