اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت اسلام آباد نمبر دو کے جج محمد ارشد ملک کی مبینہ متنازع ویڈیو لیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے بعد اٹارنی جنرل انور منصور خان سے اس معاملے پر تجاویز طلب کرلیں ، چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اصل معاملہ عدلیہ کی ساکھ ہے، لوگوں کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہوگا تو انصاف کیسے ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق آج بروز منگل سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وکیل اشتیاق احمد مرزا کی جانب سے اپنے وکیل چوہدری منیر صادق کے ذریعے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔عدالت عظمیٰ نے معاملے کے حقائق کی مکمل تحقیقات کےلئے ایڈووکیٹ سہیل اختر کی طرف سے اپنے وکیل محمد اکرام چوہدری کے توسط سے دائر درخواست جبکہ ایڈووکیٹ طارق اسد کی جانب سے خود دائر کی گئی الگ الگ درخواستوں پر بھی سماعت کی۔
سماعت کے موقع پر محمود خان اچکزئی ، طارق فضل چوہدری، جاوید ہاشمی اور رفیق رجوانہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔عدالت میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے اشتیاق مرزا کے وکیل کو سن لیتے ہیں۔درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مریم نواز نے چھ جولائی کو پریس کانفرنس کی، پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک پر سنگین الزامات لگائے گئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ کا ہے، مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں پریس کانفرنس کی، جس میں کچھ الزامات لگائے گئے، جس میں کہا گیا کہ عدلیہ دباؤمیں کام کر رہی ہے۔وکیل نے کہا کہ یہ سنگین الزامات ہیں، اس کی انکوائری ہونی چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے کیا ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میں سچ کی تلاش چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور وکلا نے ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہالہٰذا ایک کمیشن بنایا جائے، بے شک یہ کمیشن ایک رکنی ہی کیوں نہ ہو۔وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمیشن کا سربراہ کون ہو جس پر وکیل نے کہا کہ جج کمیشن کے سربراہ ہو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ایسا کلچر بن گیا ہے کہ ایک کے خراب ہونے پر سب کو ایسا سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سارے جج ایسے ہیں، سارے سیاستدان ایسے ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کمیشن کیا دیکھے، اس پر وکیل نے کہا کہ کمیشن سچائی کو دیکھے کہ اگر الزام ثابت ہو تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے۔دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج نے بیان حلفی کے ذریعے کچھ حقائق بیان کیے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس معاملے پر عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور امیر جماعت اسلامی نے بھی عدلیہ سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ عدلیہ تحقیقات کرے، اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے بھی یہی مطالبہ دہرایا۔
سماعت کے دوران درخواست گزار نے سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، اس پر عدالت نے کہا کہ حکومت کو بھی کمیشن بنانے کا اختیار ہے لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ کمیشن بنائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احتساب عدالت کے جج لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت تھے، وفاقی حکومت نے ڈیپوٹیشن پر ان کا تقرر کیا تاہم یہ ویڈیو کی ساخت کا معاملہ ہے فورم کو کونسا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دوسری باتیں عوامی باتیں ہیں، کسی کی نجی ویڈیو کیسے بنائیں، کیسے عوام کے سامنے آئی اس کو دیکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب سب کچھ سپریم کورٹ کرتی ہے تو اعتراض ہوتا ہے لیکن جب ہم ہاتھ کھینچتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کرے، ہم نے فیصلہ کرنا ہے معاملے میں کہاں ہاتھ ڈالنا ہے کہاں نہیں۔انہوں نے کہا کہ جج کے مس کنڈکٹ (غلطی) کو بھی جاننا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہاں مداخلت کرنی ہے، عنقریب ہم کچھ چیزیں طے کریں گے۔دور ان سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ وڈیو درست یا نہیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ وڈیو اور آڈیو کے قابل قبول ہونے کے کئی پہلو دیکھنے ہوتے ہیں ، اس میں بہت سے لوگ ملوث ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ہم سب پہلوؤں کو دیکھیں گے، تمام تجاویز ہمارے پاس ہیں ہم ان پر غور کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کہا گیا کہ فیصلے سے قبل جج پر دباؤڈالا گیا، یہ بھی کہا گیا فیصلے کے بعد بھی دباؤ ڈالا گیا ، یہ تمام پہلو بھی ہم دیکھیں گے۔بعد ازاں عدالت نے اس معاملے پر اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرتے ہوئے تجاویز طلب کریں ۔
کیس کی مزید سماعت 23جولائی تک ملتوی کر دی گئی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ٹارنی جنرل آکر اپنا موقف دیں گے۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں جس پر بتایاگیاکہ وہ کلبھوشن کیس کے لئے ملک سے باہر ہیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اٹارنی جنرل کی تجاویز بھی سننا چاہتے ہیں ۔