جمعرات, اکتوبر 3, 2024
اشتہار

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب منحرف ارکان پارلیمنٹ کا ووٹ شمار کیا جا سکے گا!

اشتہار

حیرت انگیز

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے بعد اب منحرف ارکان پارلیمنٹ کا ووٹ شمار کیا جا سکے گا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 سے اے نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کے بعد آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست منظور کر لی ہے۔

عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد اب ایوان میں اپنی جماعتوں سے منحرف ارکان پارلیمنٹ کا ووٹ شمار کیا جا سکے گا۔

- Advertisement -

واضح رہے کہ آرٹیکل 63 اے پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت میں منظور کیا گیا تھا جس کے تحت کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

آرٹیکل 63 اے کیا ہے؟

اس آرٹیکل کی منظوری کے بعد اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔

آرٹیکل میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے، لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ’منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا‘۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 روز ہوں گے۔ آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن ’ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔

:آرٹیکل 63 اے کا پس منظر

واضح رہے کہ 17 مئی 2022ء کو اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکن لارجر نے صدر مملکت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر تین دو کی اکثریت سے فیصلہ دیا تھا۔

ججز نے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں کیا کیا جائے گا اور پارلیمنٹ ان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے۔

پانچ رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں