تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

سپریم کورٹ کا آرٹیکل63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے۔

تفصیلات کے مطابق سسپریم کورٹ میں اسلام آباد میں جلسے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے سماعت کی۔

سپریم کورٹ بارکے وکیل منصورعثمانی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا ریکوزیشن کے بعد 14روز کے اندر اجلاس بلانے کا کہتا ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم پروسیجر کے اندرنہیں جائیں گے ، ہم پارلیمانی پروسیجنگ کے اندر مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔

وکیل منصورعثمانی نے بتایا کہ 8 مارچ کو ریکوزیشن جمع کرائی، ریکوزیشن کے اندر تحریک عدم اعتماد بھی جمع کرائی، تحریک عدم اعتماد پر نوٹس بھی جاری ہوچکا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی 14 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے، 22 مارچ کو 14روز مکمل ہوتے ہیں، موجودہ حالات میں مروجہ طریقہ کارپرعمل نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اجلاس 22مارچ کی جگہ 25 مارچ کو بلایا گیا ہے، جس پر وکیل نے کہا عدم اعتماد اجلاس میں پیش ہونے کے 3 دن بعد اور 7 روز سے قبل ووٹنگ ہونی ہے، تمام اراکین کونوٹس جاری ہونےہیں، اسمبلی اجلاس عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اسمبلی کااندرونی معاملہ ہے،آپ یہ معاملہ اسمبلی کےاندرلڑیں، عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نقاط اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

فاروق نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کر دیا اور کہا اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی ، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جن پر آرٹیکل 6لگا ہے پہلے ان پر عمل کرا لیں۔

آرٹیکل 6 سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی بات چیف جسٹس مسکرا دیئے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، آرٹیکل 17کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں اور آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 95 ٹو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ نواز شریف ، بینظیربھٹو کیس میں عدالت آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیے ووٹ ڈالے، بار زیادہ تفصیلات میں گئی توجسٹس منیب اخترکی آبزرویشن رکاوٹ بنےگی، سوال یہی ہے ذاتی چوائس پارٹی مؤقف سے مختلف ہو سکتی ہے یا نہیں؟

وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پرووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہا آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے، جس پر وکیل سپریم کورٹ بار نے مزید بتایا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر و دیگرعہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے پھر سوال کیا سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ توبتا دیں؟

وکیل سپریم کورٹ بار کی جانب سے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا ، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ آرٹیکل 66 تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے، ارٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت اسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اپ تو بار کے وکیل ہیں آپکا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے، جس پر وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سب سے مرکزی ادارہ ہے، پارلیمنٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے پارٹیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا اور عوامی مفاد میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے،عوام کا کاروبار زندگی بھی کسی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ تحریک عدم اعتماد سے بار کو کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس منیب اختر نے بھی استفسار کیا کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے؟

سندھ ہاؤس سے متعلق چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا بار بارپوچھ رہےہیں سندھ ہاؤس میں کیاہوا؟ عدالت نے صرف آئین پر عمل کرانا ہے؟ سپریم کورٹ بار کے وکیل تیاری سے نہیں آئے، بار کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بار کو تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں،بار کے وکیل کو سن چکے ہیں اب آئی جی اسلام آباد کو سنیں گے، آئی جی اسلام آباد صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے۔

آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کےاطراف دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا
رپورٹ کےمطابق5.42 بجے 35سے40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے تو آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ مظاہرین جتھے کی صورت میں نہیں آئے تھے، 2 اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

آئی جی اسلام آباد نے مزید بتایا کہ جے یو آئی نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی، بلوچستان ہاؤس کے قریب جے یو آئی کارکنان کو روکا گیا، سندھ ہاؤس واقعہ پر شرمندہ ہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا۔

چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پرماضی قریب میں کچھ ہوا تھاجس کے تاثرات سامنےآئے، ہفتےکو کیس سننے کا مقصد سب کوآئین کےمطابق کام کرنے کا کہنا تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں یقین دہانی کرائی کہ کوئی رکن پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ ڈالنے جائے تو اسے روکا نہیں جائے گا اور قومی اسمبلی اجلاس میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ، تمام اجلاسوں کوبھی بلارکاوٹ کراناوفاق کی ذمہ داری ہے، سیاسی بیانات اپنی جگہ مگرعملی طورپرکوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 254 کو شاید غلط انداز میں لیا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمانی کارروائی پرعدالت بات نہیں کررہی ورنہ تاخیرکی وجہ بتاتا، بارنےتمام اداروں کوقانون کےمطابق اقدامات کی استدعا کی ہے، بارکی دوسری استدعا امن و امان اور جلسے جلوس کےحوالے سے ہے۔

اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہوگا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے بیانات دیے ہیں، پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں، عوام کواسمبلی اجلاس کے دوران ریڈزون میں داخلےکی اجازت نہیں ہو گی، سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں۔

عدالت نے سوال کیا کہ کوئی جماعت اجلاس میں مداخلت سے روکے اور اسکا رکن چلا جائے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کوروکا نہیں جاسکتا، اس نکتے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پرآرٹیکل 63 اے کی کارروائی ہوگی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نےسیاسی قیادت میں ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے، حساس وقت میں مصلحت کے لیے کیس سن رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا سندھ ہاؤس پرحملےکا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس کو شکایت ہےمتعلقہ فورم سےرجوع کرے، سندھ ہاوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کروں گا، اپنے عہدے کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے، او ائی سی کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے۔

عدالت نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجربینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا صدارتی ریفرنس پر سماعت 24 مارچ کو کریں گے۔

Comments

- Advertisement -