جمعہ, جولائی 5, 2024
اشتہار

انتخابات نظرثانی کیس: وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت دیگر کو نوٹسز جاری

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے انتخابات نظرثانی کیس میں وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کہا اس کیس میں تمام فریقین کو سنیں گے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات کیس میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پرسماعت ہوئی، چیف جسٹس عطا عمر بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے، اٹارنی جنرل ،پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کئے گئے۔

- Advertisement -

چیف جسٹس نے کہا فنڈز اور سیکورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا تھا لیکن آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ، نظر ثانی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے پنجاب، کے پی ایڈووکیٹ جنرلز کوروسٹرم پر بلالیا اور کہا الیکشن کمیشن وکیل صاحب آپ کو دلائل کیلئے کتنا وقت چاہیے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مجھے دلائل کے لئے تین سےچار گھنٹے چاہئیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم تمام فریقین کو سنیں گے، نظرثانی درخواست ہے اس میں تیاری کیلئےکتنا وقت چاہیے۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں دو احکامات ہیں، اس وقت ملک کی آدھی آبادی بغیر نمائندگی کے ہے، عدالت اس وقت اپنے احکامات پر عمل کیلئےحکم جاری کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا،وسائل دیں انتخابات کرا دینگے، اب الیکشن کمیشن نے پنڈورا باکس کھول دیا ہے، الیکشن کمیشن نے پہلے یہ مؤقف اپنایا ہی نہیں تھا، جو نکات پہلےنہیں اٹھائے کیا وہ اب اٹھائے جا سکتے ہیں، مناسب ہوگا یہ نکات کسی اور کو اٹھانے دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی دائرہ اختیارکانکتہ بھی الیکشن کمیشن نےنہیں اٹھایا تھا، وفاقی حکومت یہ نکتہ اٹھا سکتی تھی لیکن انہوں نےنظرثانی دائرہی نہیں کی، الیکشن کمیشن کی درخواست میں اچھے نکات ہیں۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیئے، وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا مؤقف سنناچاہتےہیں، صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر کے سنیں گے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے، بعض نکات غور طلب ہیں ان پر فیصلہ کریں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن شرجیل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں ہوتا، آئینی مقدمات میں دائرہ اختیارمحدود نہیں ہو سکتا، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی مدنظر رکھیں گے نظرثانی میں نئے نکات نہیں اٹھائےجا سکتے۔

دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے،5،4دنوں سے جوہو رہاہےاسےبھی دیکھیں گے، اس کے باوجود بھی ہم اپنا کام کررہےہیں۔

جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں، آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے ،ہم سب ایک فرض کی امیدکرتے ہیں کہ جو ہرایک نے نبھانا ہے، باہر جو ہورہا ہے کون آئین پر عمل کرائے گا۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم صرف آئین اور اس پر عمل چاہتے ہیں ، حکومت اس پرعمل نہیں چاہتی ، فروری میں جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی تو اس وقت ایک پہلو تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس پہلو کی خلاف ورزی ہورہی تھی لیکن اب حالات مختلف ہیں، اٹارنی جنرل بتائیں ، مذاکرات کیوں شروع نہ ہوسکے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے، میں نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی فوٹیج بھی دیکھی ہے، ایگزیکٹو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلیٰ معیار برقرار رکھیں، آئین پر عملدرآمد لازمی ہے، اس ماحول میں آئین پر عملدرآمد کیسے کرایا جائے؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ادارے اس وقت شدید خطرے کے اندر ہیں، میرا مشورہ ہے پرامن ماحول کےلئے کردار ادا کریں، دیکھیں اسوقت سپریم کورٹ کے باہر کیا صورتحال ہے، باہر جو ہو رہا ہے، کون آئین پر عمل کرائے گا، آج دیکھ لیں، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، وفاقی حکومت مدد کررہی ہے۔

سپریم کورٹ کے وفاق،صوبائی حکومت سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کردیئے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے لوگ گولیوں سے زخمی ہوئے، اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا،الیکشن جمہوریت کی بنیادہیں، آئین پر عملدرآمد میرا فرض ہے جو ادا کرتا رہوں گا، کسی ایک فریق کا اخلاقی معیار ہوتا تو دوسرے کو الزام دیتے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کو چاہیے کہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ دیکھیں، ہمیں سیاست کے بارے میں نہیں معلوم اور نہ جاننا چاہتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق پر کیسے عمل ہوگا، اس وقت بال اٹارنی جنرل آپ کی کورٹ میں ہے، علی ظفر صاحب یہاں بتائیں گے اور اپنی قیادت کوآگاہ کرینگے، نظر ثانی کیس میں جلدی سے درخواست پر سماعت نہیں چاہتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا تو لوگ خوش ہونگے، میں نے کل دیکھا موٹر وے خالی پڑےہیں معیشت کی حالت خراب ہورہی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 90دن میں انتخابات بنیادی معاملہ ہے، کل ایک اہم معاملے کی سماعت ہے، جلدی تب کرتے جب معلوم ہوتا کہ الیکشن کا وقت آگیا ہے، جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں، لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، ادارے خطرات اور دھمکیوں کی زد میں ہیں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی پیر کو سماعت رکھنے کی استدعا مستردکردی اور کہا کہ امن و امان کو برقرار رکھنے میں حصہ ڈالیں، مشکل وقت میں صبر کرنا ہوتا ہے نہ کہ جھگڑا، لوگ آج دیواریں پھلانگ رہے تھے،حکومت ناکام نظر آئی۔

سپریم کورٹ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تفریق زدہ معاشرہ ہوگا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرےگا؟ جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں، حکومت مذاکرات کی دعوت دے تو علی ظفر بھی قیادت سےبات کریں، ملک میں کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کی طرح کی باتیں کیں لیکن عدالت سےرجوع نہیں کیا، آئین میں90دن ہیں تو 90 ہیں، 14مئی کا حکم تھا تو 14 مئی کوہی عمل ہونا تھا، عدالت کو اپنے کنڈکٹ پرمطمئن کریں، دونوں طرف میچور سیاسی جماعتیں ہیں۔

سپریم کورٹ نے انتخابات نظرثانی کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں