تازہ ترین

’اس رمضان ملک کیلیے اچھی خبریں آئیں گی‘

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ...

سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی

سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات...

شمالی وزیرستان : سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں جھڑپ، ایک جوان شہید

شمالی وزیرستان : سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے...

لانگ مارچ : راستوں کی بندش اور گرفتاریوں کیخلاف کیس، سیکرٹری داخلہ اور چیف کمشنر اسلام آباد 12 بجے سپریم کورٹ طلب

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران سڑکوں کی بندش اورگرفتاریوں کیخلاف کیس میں سیکرٹری داخلہ اورچیف کمشنراسلام آبادکوبارہ بجے طلب کرلیا اور چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کردیئے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران سڑکوں کی بندش اور گرفتاریوں کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی ، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

درخواست گزار شعیب شاہین ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ سڑکوں کی بندش سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکولز اور ٹرانسپورٹ بندہے ، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے،دیوالیہ ہونے کے در پرہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کردیا جائےگا؟ امتحانات ملتوی، سڑکیں ،کاروبار بند کر دیئےگئے ، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کا وقت دیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب کیاآپ کو ملکی حالات کاعلم نہیں؟ سپریم کورٹ کاآدھاعملہ راستےبندہونےسےپہنچ نہیں سکا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسکولوں کی بندش پر شایدآپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دےرہےہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی، جس پر جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ اسکولزبندش اور امتحانات ملتوی کےسرکاری نوٹیفکیشن ہوتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی طورپر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے،بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں، عوام کےجان و مال کےتحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی احتجاج کیلئےجگہ مختص کی گئی تھی، میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کیلئے درخواست دی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا۔

صدر اسلام آبادہائیکورٹ بار نے بتایا کہ پولیس وکلا کو بھی گھروں سے گرفتار کررہی ہے، وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ سابق جج ناصرہ جاویدکےگھربھی رات گئےپولیس نے چھاپہ مارا،مظاہرین اورحکومت دونوں آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون ہاتھ میں لینے کااختیار کسی کو نہیں، اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسےدی جا سکتی؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ابھی تواحتجاج شروع نہیں ہوا تومسلح افرادکہاں سے آ گئے؟

صدر ہائیکورٹ بار نے کہا فضل الرحمان 2بارسرینگر ہائی وے پر دھرنا دےچکےہیں،بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں، اب بھی مظاہرین کیلئے جگہ مختص کی جا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ملک کی معاشی صورتحال توہر انسان کو معلوم ہے۔

سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنراسلام آباد ، آئی جی اور ڈپٹی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو 12 بجے طلب کر لیا اور چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرالتوا کیس میں جاری احکامات بھی طلب کرلئے۔

Comments