اتوار, فروری 9, 2025
اشتہار

آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اور کہیں الیکشن ہوگئے، چیف جسٹس کے پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں ریمارکس

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل
ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل حامد علی خان اور علی ظفرروسٹرم پر آئے، بیرسٹر علی ظفر نے دلائک دیتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین اورقانون الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی ا سکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان واپس نہیں لے سکتا، بیرسٹر علی ظفر

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 17 کی تشریح کی ہے، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے۔

علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے، آرٹیکل 17 (2) سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 (2) کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، میری ایک گزارش ایک سیاسی پارٹی کے بنیادی حقوق سے متعلق بھی ہے۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےتفریق کامظاہرہ کیااورآرٹیکل25کی نفی کی،پی ٹی آئی کےکسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، الیکشن کمیشن کےپاس سوموٹوکااختیارنہیں کہ شکایت کنندہ بھی بنے اور جج بھی۔

بیرسٹر علی ظفر نےکہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ، پی ٹی آئی نے پہلے2022 میں انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، پی ٹی آئی کے کسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، اگرانٹراپارٹی انتخابات چیلنج بھی ہوتےتویہ سول کورٹ کاکیس بنتا۔

علی ظفر نے مزید کہا کہ 14افرادجن کادعویٰ تھا وہ پی ٹی آئی ممبران ہیں انہوں نےالیکشن کمیشن میں درخواستیں دائرکیں، استدعاکی گئی پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کوکالعدم قراردےکردوبارہ انتخابات کاحکم دیاجائے، اس دوران الیکشن کمیشن نےبھی ساتھ ساتھ تکنیکی نقطے اٹھانےشروع کردیے،الیکشن کمیشن کی جانب سےدستخط اورتاریخوں سےمتعلق اعتراض اٹھائےگئے۔

وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نےان 14افرادکی درخواستوں کی بنیادپی ٹی آئی کونوٹس بھیجا، سماعت ہوئی جس میں ہمارابنیادی موقف یہ تھا کہ یہ تمام 14 افراد پارٹی ممبران نہیں، ہم نےزبانی طورپران 14افرادکےبارےمیں اپناموقف دیا، سماعت ختم ہوئی توالیکشن کمیشن نے32سوالات ہمیں تھمادیے جن کاہم نےتحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی اور کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دیں گے۔

وکیل نے گذشتہ سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت توتھی،صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبرایس بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں،الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے، کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈدینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔

جس پر وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے،مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے،آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آپ یہ نہیں کرسکتےکہ کاغذکاٹکڑاپیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، آپ کم سےکم انٹراپارٹی الیکشن کی موٹی موٹی باتیں دکھادیں،کچھ توپیش کریں ، آپ دکھادیں کہ ہم نےانٹراپارٹی الیکشن میں سب کوموقع دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاالزام ہےپی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کاغذاکاٹکڑاہے، آپ نےنہیں بتایاکہ انٹراپارٹی الیکشن کہاں ہورہے ہیں، آپ نے پشاور کا توالیکشن کا ذکر کیا مگرالیکشن کہیں اورچمکنی میں کرادیے، انٹراپارٹی الیکشن چمکنی میں ہوئے جو پشاور نہیں کوئی اور جگہ ہے۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے جن بےضابطگیوں کی نشاندہی کی وہ پی ٹی آئی آئین سے ہی کی ہیں تو علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول اور مقام پر کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں، اکبر ایک بابر کو الیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں،کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ یہ عہدیدار کون ہیں تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8 لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ؟

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اسکی نشاندہی کر رہا ہوں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیاد نقطہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہو جائیں گی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقےکار سےکرائےہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہ جائیں، بس اتنا بتا دیں کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں