اسلام آباد : سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی اپیل پر وکیل بابر اعوان اور پرویز الہی کو عمران خان سے مشاورت کی ہدایت کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لاہورہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کی۔
چیف جسٹس کا پرویزالہٰی اور حمزہ شہباز سے مکالمہ
سپریم کورٹ کی طلبی پر حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی ویڈیو لنک پر سماعت میں شریک ہوئے ، چیف جسٹس نے پرویزالہٰی اور حمزہ شہباز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہمارےسامنے ایشو یہ ہے الیکشن کیلئے مناسب وقت نہیں دیا ، اگر ہم وقت دیں تو سوال یہ تھا کہ نظام کیسےچلے گا، ہمیں یہ بتایا گیا ہے پرویزالہٰی متفق ہیں کہ الیکشن تک حمزہ شہباز وزیراعلیٰ رہیں۔
چیف جسٹس نے پرویزالہٰی سے مکالمے میں پوچھا کیا یہ بات درست ہے ، جس پر پرویزالہٰی نے بتایا کہ ایسی بات نہیں ہے اس وقت بھی پنجاب اسمبلی کو چاروں طرف سے گھیرا ہواہے، حمزہ شہباز نے پورے صوبے کو ٹیک اوور کیا ہوا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے وکیل نے کہا لوگ اکٹھا کرنے ہیں ، ہم نے کہایہ ایسا الیکشن نہیں جس میں لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔
یہ قبول نہیں کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ رہیں، پرویز الہی
پرویزالہٰی کا کہنا تھا کہ جب سے حمزہ وزیراعلیٰ بنے ہیں اسمبلی کے سول کپڑوں میں پولیس تعینات ہے، ایسی صورتحال میں ان پر اعتماد نہیں کرسکتا، اسمبلی میں کورم ہی پورا نہیں ہے، یہ قبول نہیں کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ رہیں۔
آپ کے پاس دو آپشن ہیں، جسٹس اعجازالاحسن
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آپ کوقبول نہیں توہم قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے، اس سے آپ دونوں کو نقصان ہوگا، آپ کے پاس دونوں آپشن ہیں، پہلی صورت یہ ہےکہ اراکین کے پاکستان واپس آنے تک کا وقت دیاجاسکتاہے، دوسری صورت یہ ہے وزیراعلیٰ کاانتخاب ہونے دیں ، پھر ضمنی الیکشن کے بعد عدم اعتمادلےآئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا مزید کہنا تھا کہ آئینی بحران بڑھتا جا رہا ہے، اس بحران کو اچھے طریقے سے آئین کے مطابق حل کیا جائے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا عدالت وقت دیتی ہے تو حکومت کون چلائے گا؟
اگر 17جولائی کوضمنی الیکشن ہونا ہے تو 17تاریخ کے بعد الیکشن کرادیں، حمزہ
حمزہ شہباز نے کہا کہ میں عدالت کو یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا اتفاق رائے ہوجائے گا ، اگر 17جولائی کوضمنی الیکشن ہونا ہے تو 17تاریخ کے بعد الیکشن کرادیں۔
جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے توآپ دونوں متفق ہیں کہ 17کو الیکشن ہوجائے، ہم جتنا بھی وقت دیں اس دوران آپ وزیراعلیٰ نہیں رہ سکتٕے تو حمزہ شہباز نے کہا کہ
سر اس کا حل یہ ہے کہ ابھی پولنگ ہوجائے جبکہ پرویزالہٰی نے کہا کہ میری استدعا ہے کچھ وقت دے دیا جائے تاکہ ممبرز حج سے واپس آ جائیں۔
دوران سماعت پرویز الٰہی کے کان میں بات کرنیوالے ق لیگ ممبر کو عدالت روک دیا ، پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ 17جولائی کےضمنی انتخابات تک انتظار کیا جائے.
حمزہ شہباز نے کہا کہ الیکشن ہونے دیں17 جولائی کے بعد دوبارہ فیصلہ کیا جائے، ہم نے تو اپنے لوگوں کو حج پر جانے سے بھی روکا ہے ، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا آپ دونوں نے مشاورت کی ہے، تو حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی مشاورت نہیں کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ دونوں یہیں پرمشاورت کرلیں، تو پرویز الٰہی نے جواب دیا کہ اگر آپ کہتے ہیں تو ہم مشاورت کرلیتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا پچھلا سیشن جاری نہیں تھاوقفہ آیاہےتووقت دیناضروری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپکی خواہش کاپتہ چل گیاہےاب آئینی حل کیا ہے وہ یکھ لیتے ہیں، آئین کے تحت 17تاریخ تک انتظار کرنےکی ضرورت نہیں، چوہدری پرویزالہٰی نے کہا کہ ان سےکہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر اتفاق رائے کرلیں۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کی دونوں باتیں نہیں مانی جاسکتیں،17تک وقت دیں،اسوقت تک حمزہ وزیراعلیٰ بھی نہ رہیں، تو پرویزالہٰی کا کہنا تھا کہ یہ ہوسکتا ہےکہ یہ 17تک نگراں وزیراعلیٰ رہیں مگرپکڑ دھکڑ،ہراسمنٹ نہ ہو تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پکڑ دھکڑ ہوتی ہیں تو عدالتیں کھلی ہیں۔
پرویز الہٰی نےحمزہ شہباز کو17تاریخ تک وزیراعلیٰ تسلیم کرنےکاعندیہ دے دیا
دوران سماعت پرویز الہٰی نےحمزہ شہباز کو17تاریخ تک وزیراعلیٰ تسلیم کرنےکاعندیہ دے دیا ، جس پر سپریم کورٹ نے پرویزالہٰی اور حمزہ شہباز کو بیٹھنے کا کہا۔
وکیل بابراعوان نے پرویزالہٰی کی رائے سے عدم اعتماد کااظہار
پوزیشن لیڈرسبطین خان کےوکیل بابراعوان نے پرویزالہٰی کی رائے سے عدم اعتماد کااظہار کردیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کے امیدوار متفق ہیں تو بابر صاحب آپ اختلاف کیوں کررہےہیں،
وکیل بابر اعوان نے کہا ہمیں ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی ، جس پر عدالت نے بابر اعوان کو ہدایت کی آپ اپنی استدعا کریں ، وکیل پی ٹی آئی بابر اعوان نے کہا پی ٹی آئی اور ق لیگ اتحادی ہیں لیکن الگ جماعتیں ہیں، مجھے ایسی ہدایات نہیں ملیں، تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بابر اعوان آپ کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کو کوئی اعتراض نہیں، پرویزالہٰی امیدوار ہیں انہیں اعتراض نہیں تو پی ٹی آئی کو کیا مسئلہ ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نےآئینی بحران پیدا نہیں کرنا ، ہم آپ کودو دن دیں گے ،2دن بعد رن آف الیکشن ہو گا ، آپ نے تو صرف 7دن مانگے تھے اس طرح زیادہ وقت مل رہاہے۔
حمزہ شہباز کی وزارت کا نوٹی فیکیشن غیر قانونی ہے، بابر اعوان
وکیل بابر اعوان نے بتایا کہ حمزہ شہباز کی وزارت کا نوٹی فیکیشن غیر قانونی ہے، عدالت وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے صاف شفاف انتخابات کا حکم دے اور 5مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن نوٹی فیکیشن کا حکم دیں۔
جس پر چیف جسٹس نے بابراعوان سے مکالمے میں کہا آپ چاہتے ہیں دو دن دیں اور حمزہ شہباز اس دوران وزیراعلیٰ نہ رہیں، اپنی درخواست پڑھیں آپ نےکیا استدعا کی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آپ مسئلے کو حل کریں مزید نہ الجھائیں ، سیاسی بات سیاسی فورم پرہوتی ہے یہ قانون کی عدالت ہے، ہم قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی یہ بات درست ہے کہ آئین مناسب وقت دینےکی بات کرتاہے، میرے خیال میں 5،4دن کافی ہیں ، آپ کہتےہیں کہ وزیراعلیٰ کو ہٹایا جائے تو اسکے کیلئےحل چاہیے، ہم وقت نہیں دے سکتے کیونکہ آپ کسی حل پر متفق نہیں ہوئے، فریقین میں اتفاق نہیں ہوسکا، صرف دیکھنا چاہتےتھے سینئر سیاستدان مسئلہ کس طرح حل کرتےہیں۔
حمزہ شہباز کی وزارت کا نوٹی فیکیشن غیر قانونی ہے، بابر اعوان
وکیل بابراعوان کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے پارٹی لیڈرز سےمشورہ کرنے دیں ، پنجاب اسمبلی کی طویل تاریخ ہے ، ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا جو اب ہوا ، پہلے حمزہ شہباز نے صورتحال بتائیں آج کی صورتحال پرویزالہٰی نےبتا دی ، پنجاب میں تعطل اور بحرانی صورتحال ہے، حمزہ شہباز کسی صورت وزیراعلیٰ کے طور پر قبول نہیں ، حمزہ شہباز کے نوٹی فکیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
بابراعوان کو عمران خان سے ہدایات اور مشورے کیلئےآدھا گھنٹےکا وقت دے دیا
عدالت نے بابر اعوان کو عمران خان سے ہدایات اور مشورے کیلئےآدھا گھنٹےکا وقت دے دیا، چیف جسٹس نے کہا پرویزالہٰی عمران خان سے رابطہ کریں اور آدھے گھنٹے میں آگاہ کریں۔
دو دن کے بعد رن آف الیکشن ہوگا، دو دن میں جو اکثریت لے گا وہ وزیراعلیٰ ہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ دو دن کے بعد رن آف الیکشن ہوگا، دو دن میں جو اکثریت لے گا وہ وزیراعلیٰ ہوگا، جس پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ہمیں حمزہ شہباز عبوری پیریڈ میں وزیراعلیٰ قبول نہیں، مناسب وقت دیاجائے نہ کم ہو نہ زیادہ ہو۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مکالمے میں کہا آپ کے امیدوار پرویز الہی کچھ اور کہتے ہیں، آپ عدالت سے کچھ کہہ رہے ہیں، آپ کی آپس میں بات نہیں مل رہی،اس پر عدالت کیا کر سکتی ہے۔
بابراعوان کا کہنا تھا کہ میری گزارش ہے کہ آرٹیکل 187 کے تحت فیصلہ کریں، عدالت کسی تیسرے کو صاف شفاف الیکشن کا حکم دیں، الیکشن کمیشن روز کہتا ہے عدالتی حکم ملتےہی مخصوص نشستوں پرنوٹیفکیشن کریں گے، حمزہ شہباز کو قبول نہیں کر سکتے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بابر اعوان صاحب ہم نے آئینی بحران پیدا نہیں کرنا۔
بابر اعوان نے عدالت میں کہا کہ پرویزالہٰی اور حمزہ شہباز نے کچھ واقعات کا ذکر کیا، صرف استدعا ہی کر سکتے ہیں ،فیصلہ عدالت نے کرنا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ
پانی میں مٹی ڈالنے کے بجائے مسئلے کا حل نکالیں۔
چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آرٹیکل 187 کو ایسے تو استعمال نہیں کرسکتے، عدالت اپنا کام کر ہی ہے،عدالت کا شکریہ ادا نہ کریں، آئین ارکان کو مناسب وقت فراہم کرنے کی بات کرتا ہے، رن آف الیکشن کیلئے 3 سے 5 دن مناسب وقت ہوگا، آپ کہتے ہیں وزیراعلیٰ کو ابھی ہٹا دیا جائے۔
جسٹس عطا بندیال نے مزید کہا کہ پرویزالہٰی نے جو شرائط رکھیں وہ آپکے اطمینان کیلئےحمزہ پر عائدکی جا سکتی ہیں، عدم اعتماد والے کیس میں عدالت ایسی شرائط عائد کر چکی ہے۔
وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سیاسی پوزیشن سے عدالت کو آگاہ کر دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی پوزیشن ایوان میں لیں،عدالت میں قانونی بات کریں، آپ اور آپکے امیدوار ہی ایک پیج پر نہیں۔
سماعت کا احوال
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پانچ درخواستیں ہیں کون کس کا وکیل ہے ؟ جس پر اپوزیشن لیڈر سبطین خان کی جانب سےبابر اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔
بابراعوان کا کہنا تھا کہ 6اپریل کو وزیراعلیٰ کا الیکشن ہواجس میں ایوان میں لڑائی ہوئی، لڑائی جھگڑے کے بعد پولیس کو ایوان میں طلب کیاگیا، لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے ہائی کورٹ نے کہا ہے 197میں سے25نکال دیں، 25 ووٹ نکالنے کے بعد حمزہ کا انتخابات درست نہیں رہتا، انتخاب کے دوسرے راؤنڈ میں سادہ اکثریت یعنی 186 کی ضرورت نہیں اور آپ کا مؤقف ہے کہ ہمارے ارکان بیرون ملک ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا اختلافی نوٹ میں ووٹنگ کی تاریخ کل کی ہے اور استفسار کیا کیا آپ کل ووٹنگ پر تیار ہیں؟ کس بنیاد پر لاہورہائیکورٹ کے حکم میں مداخلت کریں؟
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ملک کے اندر موجود ارکان ایک دن میں پہنچ سکتےہیں، پی ٹی آئی نےدوبارہ انتخابی عمل کےلئے7 دن کا وقت مانگ لیا، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ 7 دن کا وقت دینا مناسب نہیں، اب آپ کا کہنا ہےکہ ری پولنگ کاوقت دیاجائے، آپ عدالت سے کیا چاہتے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے بتایا کہ چاہتا ہوں ووٹنگ کے وقت زیادہ سے زیادہ ارکان کوپہنچنا چاہیے، حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ ہوتےہوئے پولنگ شفاف نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ایسی کوئی بات نہیں، آپ کا کہنا ہے کہ آپ کے ایم پی ایزمصروف ہیں جبکہ سوال یہ ہے آج شام 4بجے اجلاس ہونا ہے یا نہیں ، آج پنجاب اسمبلی کےاجلاس کے نہ ہونےپر قائل کریں ، پھر دیکھیں گے اجلاس آج نہیں توکب ہوسکتا ہے۔
جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ کوئی ایسی شق ہے کہ وزیراعلیٰ کے نہ ہونے پر گورنرچارج سنبھالے ، جس پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہسینئر وزیر کو وزیراعلیٰ کا چارج دیا جاسکتا ہے ، ایک قائم مقام کابینہ تشکیل دی جاسکتی ہے ،وکیل بابر اعوان
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کیا ہم حکم دے سکتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک گورنرصوبائی اموردیکھے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں وقت کے حوالے سے آپ کی پریشانی سمجھ آ گئی ہے، اگر عوام کو موقع دیا جائے تو جمہوریت بہترین ہے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کی جانب سے امتیاز صدیقی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا بابر اعوان بھی اسی درخواست میں وکیل ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہےکہ صوبےکانظام کیسےچلےگا، عوام کوحکومت کا موقع دیا جانا ہی بہترین جمہوریت ہے، 1988میں جب صدر صاحب شہید تھے تو چیئرمین سینیٹ نے نظام چلایا تھا، مگر عدالت نے اسے غیر آئینی قرار دیا تھا، ملکی نظام منتخب اراکین کے ذریعے ہی چلایا جاسکتا ہے۔
امتیازصدیقی نے کہا کہ آئین وزیراعظم یاوزیراعلیٰ کی عدم موجودگی میں نگراں کا تصوردیتاہے، جس پر جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ آئین کی اس شق کااطلاق موجودہ صورتحال میں نہیں ہوگا، 17جولائی کو عوام نے 20نشستوں پر ووٹ دینے ہیں ، گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیرآئینی ہوگا۔
جسٹس عطا بندیال نے مزید کہا کہ آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی حکومت چلاسکتے ہیں، اسمبلی تحلیل پر ہی نگراں حکومت بن سکتی ہے، وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ ایوان میں کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 130 کی شق 4کی تشریح کرناپڑے گی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ 26 گھنٹے کا وقت کم ہے، ہم آپ کی دلیل سےمتفق نہیں کہ اراکین موجود نہیں، ووٹنگ کے دوران تو اراکین اسمبلی سے بھی اٹھ کرچلے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ آپ صرف وقت پر بات کریں ،سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں ، بابر اعوان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ اراکین کو ووٹنگ میں شامل ہونے کا موقع ملنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ دیتے ہوئے ہدایت کی آدھے گھنٹے میں ہمارے سوالات کا جواب تیار کرکےآئیں۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو بابر اعوان نے حل نکالنے کے لیے 24 گھنٹےمانگ لیے ، وکیل نے بتایا کہ چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا ہے انہیں حمزہ کے بطور وزیراعلیٰ رہنے پر اعتراض نہیں۔
بابر اعوان نے اس تجویز سے عدم اتفاق کر دیا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آج4بجےوالا الیکشن نہیں ہوسکتا، لاہور ہائی کورٹ کاری پولنگ کا فیصلہ درست ہے، مناسب وقت زیادہ سے زیادہ 36 گھنٹے ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے یہ انا کا نہیں ملک کا مسئلہ ہے ، سپریم کورٹ نے پرویزالٰہی اور حمزہ شہباز کو طلب کرلیا۔
جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی کو لاہور رجسٹری میں آئیں، وزیراعلیٰ پنجاب اور پرویزالہٰی 4بجے لاہور رجسٹری پہنچیں، اگر وہ آجاتے ہیں تو انہیں سن کر کرفیصلہ کریں گے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ سماعت 3بجکر45منٹ پر دوبارہ شروع ہوگی۔