اسلام آباد : سپریم کورٹ نےعدالتی اصلاحات بل کیخلاف درخواستوں کیلئے فل کورٹ بنانے کی استدعا اوراٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینےکی درخواست مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر نقوی،جسٹس محمدعلی مظہر، جسٹس عائشہ ملک ، جسٹس اظہر حسن رضوی ،جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ یہ ایک الگ نوعیت کا کیس ہے، میں اس پراپنے خیالات آپ سے شیئر کرنا چاہتاہوں، یہ معاملہ سنجیدگی سےلیا گیا، کروشل گراؤنڈز پر لیا گیا، ہم نے اس پر ایک لارجر بینچ بنایا ہے، ہم چاہتےہیں ایک شفاف معاونت کی جائے۔
جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آج جو ہمارے سامنے درخواستیں ہیں وہ تین ہیں، امید کرتے ہیں آپ سب وکلا جواب تحریری طور پرجمع کرائیں، اٹارنی جنرل سے درخواست ہے کہ وہ روسٹرم پر آئیں، جو قانون آیا اس کا مسودہ اور متعلقہ کمیٹی کےمنٹس پیش کئے جائیں۔
ن لیگ کی جانب سےبیرسٹر صلاح الدین اور پی پی نے فاروق نائیک کووکیل مقرر کردیا ، پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔
طارق رحیم نے بتایا کہ عدالتی اصلاحات بل قانون کا حصہ بن چکا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا، جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے، آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں، دیکھنا ہے کہ عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟
جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے عدلیہ کہ آزادی بنیادی حق ہے، عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے یہ مقدمہ منفردنوعیت کا ہے،مقدمے پر فریقین کےسنجیدہ بحث کی توقع ہے، لارجربینچ کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہو گی۔
سپریم کورٹ نےتمام فریقین سے تحریری جواب مانگ لیا ، چیف جسٹس نے کہا پاکستان میں اپنی نوعیت کایہ پہلاقانون ہے، ریاست کےتیسرےستون کے بارے میں یہ قانون ہے۔
عدالت نے سپریم کورٹ رولزاینڈپروسیجربل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ اور قائمہ کمیٹی میں ہونیوالی بحث کاریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
دوران سماعت پاکستان بارکونسل نے7سینئرججزپرمشتمل بینچ بنانےکامطالبہ کردیا، چیئرمین ایگزیکٹوکمیٹی پاکستان بارکونسل نے کہا کہ
ایک جج کے خلاف ہم نے ریفرنس فائل کیا ہے، وہ جج بھی قابل احترام ہیں، جن کیخلاف شکایت کی ہےانہیں شامل نہ کریں۔
مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے، پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کیلئے لڑائی لڑی ہے، بینچ میں 7سینئرترین ججز شامل ہوں توکوئی اعتراض نہیں کرسکے گا، بینچ کے ایک رکن کے خلاف 6ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔
پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کردی، جس پر عدالتی اصلاحات بل پر فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا فی الوقت مسترد کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بینچ بنانےکااختیارچیف جسٹس کا ہے تو چیئرمین ایگزیکٹوکمیٹی پاکستان بار کونسل کا کہنا تھا کہ جی جی کوئی شک نہیں۔
جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ کسی جج کے خلاف ریفرنس،شکایت درج کرا کر اسے کام سے نہیں روکا جا سکتا، قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیودبھی ہیں، فیڈرل لیجسلیٹولسٹ کےسیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آزاد عدلیہ آئین کابنیادی جزو ہے،الزام ہے پہلی بارآئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعےخلاف ورزی کی گئی۔
چیف جسٹس کا دوران سماعت کہنا تھا کہ 7سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے،افتخار چوہدری کیس میں عدالت نےقرار دیاریفرنس صرف صدر دائرکرسکتے ہیں، کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کوکام سےنہیں روکا جاسکتا۔
جسٹس عطا بندیال نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا، شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں، مجھ سمیت سپریم کورٹ کےاکثر ججز کیخلاف شکایات آتی رہتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے، سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں،انتخابات کےمقدمےمیں بھی کچھ ججزکونکال کرفل کورٹ کامطالبہ کیا گیا تھا۔
جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے، ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کا پابند ہے،ججز اور عدلیہ کو احترام نہ دیا گیا تو انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا۔
انھوں نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے، ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیاہےاور کیوں بنا؟ جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت بینچ بڑھانے پرغور کرے تو چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ بینچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں اور وکلاتنظیموں سے 8 مئی تک جواب طلب کرلیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت 8مئی تک ملتوی کردی۔