اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کافیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جلد مختصر حکم سنائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل62ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
نماز جمعے کے وقفے کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پر بحث ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نہیں سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پربحث نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے یہ بڑی عجیب بات ہے ، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اصل میں خاکوانی کیس کس معاملے پر تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے متعلق تھا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے خاکوانی کیس میں کہا کہ نااہلی کا معاملہ بعدمیں دیکھیں گے ، خاکوانی کیس میں پھر یہ معاملہ بعد میں نہیں دیکھا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں سمیع اللہ کیس کافیصلہ درست نہیں، تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی بالکل میں سمجھتاہوں سمیع اللہ کیس کا فیصلہ درست نہیں آیا، صابر شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا 62 الیکشن سے پہلے اور 63 بعد میں لاگو ہوگا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ خاکوانی کیس 7رکنی بینچ اور سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ5رکنی بینچ نے دیا، آپ خاکوانی کیس سےمتعلق بات کریں ، خاکوانی کیس کے 7رکنی بینچ کا فیصلہ کیسے پس پشت ڈالا گیا ، 7رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے توہم 5رکنی بینچ کے فیصلے پر انحصارکیوں کریں۔
اٹارنی جنرل نے 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کورٹ آف لا کیا ہوگا2015 میں 7رکنی بنچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کیا ، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے،اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کےاختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے، آصف سعید کھوسہ کےنوٹ سےاتفاق کرتاہوں اس پر بات کریں۔
اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پرآئے اور کہا پی ٹی آئی کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کب سےانتظار کررہے تھے کوئی سیاسی جماعت آئے۔
شعیب شاہین نے کہا الیکشن ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کے لیے کی گئی، پارلیمنٹ نے فرد واحد کے لیے ترمیم کرکے سپریم کورٹ کی باسٹھ ون ایف کی تشریح غیرمؤثر کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن ایکٹ سےمسئلہ ہے تو اسے چیلنج کریں، دیکھ لیں، تحریک انصاف نے ہمارے سامنے کوئی درخواست دائر نہیں کی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے، جس پرشعیب شاہین نے کہا ہم تو آج کل دیر ہی کررہے ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے 1973کاآئین بنانےوالےزیادہ دانشمندتھے، بعدمیں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئےآئے کہ چلواس میں کچھ اورڈال دو، انہوں نےکہا یہ لوگ سر نہ اٹھا لیں، انہوں نےسوچاایسی چیزیں لاتےہیں جس کوجب دل چاہانااہل کردیں گے، کسی جگہ آئین میں اگرخاموشی رکھی گئی تو اس کی بھی وجہ ہو گی، جب کہتاہوں میں نےکسی چیز کافیصلہ نہیں کرناتویہ بھی ایک فیصلہ ہوتاہے۔
سپریم کورٹ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نےریمارکس دیے مختصرفیصلہ جلد سنائیں گے۔
اس سے قبل سماعت میں جہانگیرترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے پورے ملک کوتباہ کرنے والا پانچ سال بعداہل ہوجاتاہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہوجائےتوتاحیات نااہل؟ ایک جنرل نے آئین میں شق ڈال دی توسب پابند ہوگئے؟