اتوار, جولائی 7, 2024
اشتہار

الیکشن ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد :سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونل کی تشکیل کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

- Advertisement -

تحریک انصاف کے وکیل نیاز اللہ نیازی نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کا اعتراض ہے کہ چیف جسٹس بنچ کا حصہ نہ ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کا اعتراض سن لیا ہے تشریف رکھیں، یہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس پاکستان کے درمیان معاملہ ہے، کسی پرائیویٹ شخص کو اس معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس فیصلہ نہ کریں تو کیا متاثر عام آدمی ہی ہوگا؟ معاون وکیل نے استدعا کی کہ حامد خان اس کیس میں وکیل ہیں ان کی درخواست ہے کہ آئندہ ہفتے تک کیس ملتوی کر دیں۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کوئی صدارتی آرڈیننس آیا ہے ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق؟ اٹارنی جنرل نے آرڈینینس سے متعلق تفصیلات بارے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا آرڈینینس میں ترمیم کی گئی ہے، بل قومی اسمبلی سے منظور ہو کر سینیٹ میں پہنچ چکا ہے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 140 کو کو اسکی اصل حالت میں بحال کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا اپ بل اور آرڈینینس عدالت میں پیش کر دیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اس آرڈیننس کا اس کیس پر اثر ہو گا۔

جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا 15 فروری کا خط جمع کرائیں وہ بہت ضروری ہے، آپ نے پینل مانگا تھا اس کا کیا مطلب ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی استفسارکیا اگر ججز کی فہرست درکار تھی تو ویب سائٹ سے لے لیتے؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا استفسار کیا کیا چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی پسند نا پسند کا پابند ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن ہدایات دے سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن پینل نہیں مانگ سکتا، کیا اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں بھی پینل مانگے گئے تھے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کر سکتا تھا، چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر بیٹھ کر مسئلہ حل کر سکتے ہیں، اس معاملے پر وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟

جسٹس امین الدین خان نے کہا اگر ترمیم منظور ہوجائے تو بھی ہائی کورٹ چیف جسٹس سے مشاورت لازمی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا الیکشن کمیشن چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ملاقات پر تیار ہیں یا نہیں؟

سکندر مہمند نے عدالت کے روبرو کہا گزشتہ سماعت کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے خط لکھا لیکن لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خط کا جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے چیف جسٹس کو کہا جاتا کہ کن علاقوں کیلئے ججز درکار ہیں وہ فراہم کر دیتے، ملتان کیلئے جج درکار ہے وہ اس رجسٹری میں پہلے ہی جج موجود ہوگا، کیا لازمی ہے کہ ملتان کیلئے لاہور سے جج جائے جبکہ وہاں پہلے ہی جج موجود ہے، پہلے اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات ہوتی تھی اب کیا ججز بھی اچھے برے ہونگے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تمام ججز اچھے ہیں، سب کا احترام کرتے ہیں آئینی ادارے آپس میں لڑیں تو ملک تباہ ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا ججز تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کب ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ کے اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتاوں گا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر مشاورت کریں تو کوئی اعتراض ہے؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا الیکشن کمیشن کہتا ہے اسے چیف جسٹس کے نام مسترد کرنے کا اختیار ہے، اسے مشاورت نہیں کہا جاتا، الیکشن کمیشن کا رویہ جوڈیشل سسٹم پر حملہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کسی کو جوڈیشل سسٹم پر حملہ نہیں کرنے دیں گے، الیکشن کمیشن اگر نام مسترد کرے گا تو اس سے قانونی اختیار بھی پوچھیں گے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کا کنٹرول نہیں سنبھال سکتا کہ کونسا جج کہاں بیٹھے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے چودہ فروری کو خط لکھا انہوں نے کوئی تاخیر نہیں کی، لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے کہ آپس میں کچھ طے نہیں کر سکتے۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا الیکشن کمیشن کیسے چیف جسٹس کے نام مسترد کر سکتا ہے؟ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جو نام دیے وہ قبول کر لئے گئے، پنجاب میں الیکشن کمیشن نے کیوں مسئلہ بنایا ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ہر پٹیشن میں فریق ہے، سب اس کی مرضی سے تو نہیں ہوگا۔

سکندر مہمند نے عدالت کے روبرو کہا آپ کے نکات سے مکمل متفق ہوں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے متفق ہونے کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کا پہلا موقف درست نہیں تھا، کیا متفقہ طور پر ٹربیونلز کو کام جاری رکھنے اور حتمی فیصلہ نہ سنانے کا حکم دیدیں؟

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے الیکشن کمشن کو سوچنا ہوگا چیف جسٹس سے بات کر رہا ہے یا کسی سیکشن افسر سے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا الیکشن کمشین ہائی کورٹ کا حکم نہ مانے تو توہین عدالت لگے گی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ٹربیونلز کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن خود جاری کرنا کیا آئینی ہے؟

جسٹس عقیل عباسی نے بھی استفسار کیا الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل نہ کرے تو عدالت اور کیا کرے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہائی کورٹ کو نوٹیفیکیشن کے بجائے توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا ہائی کورٹ کا نوٹیفیکیشن اور فیصلہ معطل کیا جائے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں چیف جسٹس ہائی کورٹ بھی عدالتی فیصلے کی پابند ہوں گی، اس طرح تو چیف جسٹس پر بھی توہین عدالت لگ جائے گی۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا الیکشن کمیشن پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر عمل کرے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن اپیل سے مشروط نوٹیفیکیشن جاری کرے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا خود کو عدالت کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا خود کو عدالت کے ہاتھ میں ہائی کورٹ میں چھوڑتے تو مسئلہ نہ ہوتا، پتا نہیں کیوں انا کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر ججز کو بھی مشاورت کی ضرورت ہے تو اٹارنی جنرل نے کہا مشاورت کیلئے اگر عدالت آدھا گھنٹہ ملے تو پارلیمانی کمیٹی اجلاس جلدی بلوانے کا کہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پارلیمانی کمیٹی پر کوئی بات نہیں کریں گے، جس بھی ادارے کے پاس جو بھی اختیار ہے اس کا مکمل احترام کرتے ہیں۔

جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ٹربیونلز کا دائرہ کار الیکشن کمیشن نے متعین کیا تھا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پورا بلوچستان آبادی کے لحاظ سے بلوچستان سے چھوٹا ہے تو سکندر مہمند نے بتایا مجموعی طور پر پنجاب میں 176 الیکشن پٹیشنز دائر ہوئی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے اگر میں چیف جسٹس ہائی کورٹ ہوتا تو وہی کرتا جو لاہور ہائی کورٹ نے کیا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے حکم دیا کہ جیسے ہی چیف جسٹس کی تقرری کا عمل مکمل ہو، الیکشن کمیشن فوری مشاورت کرے، مشاورت شفاف انداز میں ہونی چاہیے۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا لاہور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد ہی مشاورت کا عمل ممکن ہوگا ، الیکشن کمشین کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن معطل کیے جاتے ہیں، آئندہ سماعت تک لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل رہے گا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کی تشکیل سے متعلق کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں