انسان ہمیشہ سے پُرتجسس رہا ہے۔ ان دیکھے اجسام، عجیب و غریب، ماورائے عقل، پوشیدہ اور دست رس سے دور کوئی دنیا اور اشیا اسے متوجہ کر لیتی ہیں۔ جب انسان نے غور و فکر کی عادت اپنائی، شعور اور آگاہی کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنے تخیل کو مہمیز دی تو ایسا ادب تخلیق کیا جو صدیوں بعد سائنسی اختراعات و ایجادات کی بنیاد بنا۔
ہم ان نام ور اور باکمال ناول نگاروں کا آپ سے تعارف کروا رہے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات میں صدیوں پہلے زمین اور انسانوں سے متعلق جن ماورائی، غیر حقیقی اور حیرت انگیز تصورات پیش کیے اور آج سائنس نھیں حقیقت کا روپ دے چکی ہے۔ وہ تصورات اب ہمارے سامنے ہیں اور انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہی ادیبوں اور دانش وروں کی بدولت نئی دُنیاؤں کی تلاش اور ایجادات کا سفر بھی شروع ہوا۔
From the earth to the moon
لگ بھگ تین صدیوں پہلے جولز ورنے کی یہ تخلیق منظرِ عام پر آئی تو پڑھنے والے اسے محض ایک ناول سمجھ کر لطف اندوز ہوئے۔ اس ناول میں ایک ایسے خلائی جہاز کا تصوّر پیش کیا گیا تھا جو ایک طاقت وَر توپ سے داغے جانے کے بعد چاند کے مدار میں پہنچ جاتا ہے۔ مصنف نے حیران کن اور دل چسپ انداز میں اسے چاند کے گرد چکر لگاتا ہوا بتایا۔ یہ اس دور میں خلافِ عقل اور ناقابل فہم ضرور رہا ہو گا مگر اسے پڑھنے والوں نے بے حد پسند کیا۔ کہانی میں مدار سے اس اسپیس شپ کی زمین پر واپسی کی لفظی صورت گری کی گئی تھی۔ آج انسان خلا نوردی اور کہکشاؤں کا کھوج لگانے کے ساتھ چاند پر بھی پہنچ چکا ہے۔
Twenty thousand leagues under the sea
اسی ناول نگار کے تخیل نے ایک ایسے سیّارچے کی کہانی بھی بُنی جو خلا کے اسرار دریافت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس قلم کار کا یہ ناول شاہ کار مانا جاتا ہے جس میں اس نے ایک آب دوز کا تصوّر پیش کیا تھا جو سمندر کی گہرائی میں پہنچ کر سَر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ ناولز بیسٹ سیلر ثابت ہوئے اور متعدد یورپی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔ صدیوں پہلے ایک انسان کے تخیل کی اڑان کتابی صورت میں ملکوں ملکوں قارئین تک پہنچی اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ دیو قامت سمندری جہاز اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس آب دوزیں سمندر کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔
First man in the moon
ایک اور سائنس فکشن رائٹر ایچ جی ویلز ہے جس نے فلکیات کو اپنا موضوع بنایا۔ یہ وہ ناول ہے جسے پڑھ کر انسان کے پہلے خلائی مشن کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ایک ادیب کے ذہن نے مستقبل کی صورت گری کی ہو گی۔ سترھویں صدی عیسوی میں اس فکشن نگار نے اپنے ناول میں انسان کو چاند پر اتارا تھا اور بیسویں صدی میں اس کہانی نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔
Journey to the center of the earth
اسی فکشن نگار نے اپنی اختراعی صلاحیت اور قلم کی طاقت سے ایک اور ناول کاغذ پر منتقل کیا جس میں انسانوں کو ڈائنو سار کے دور میں دکھایا۔ اس ناول نے قدیم زمانے کے قوی الجثہ حیوان سے متعلق انسانوں کو مزید تحقیق پر اکسایا اور ڈائنو سار کے ڈھانچوں کی دریافتوں کے ساتھ ان پر باقاعدہ ریسرچ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول بھی سائنسی میدان میں ترقی کا سبب بنا۔