نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر سائنسی تحقیق کے بجٹ میں کٹوتیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، جس کے بعد سائنسدان امریکا چھوڑ کر یورپ یا کینیڈا منتقل ہونے پر غور کررہے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جواب دینے والے سائنسدانوں میں سے 75.3 فیصد امریکا چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔
سائنس دان، خاص طور پر وہ لوگ جو ابھی کم عمر ہیں اور اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہیں، بڑی عمر کے سائنسدانوں کے مقابلے میں امریکا چھوڑنے پر غور کررہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے تقریباً 1,650 سائنسدان سروے میں شامل ہوئے، سروے رپورٹ کے مطابق 548 ڈاکٹریٹ کے طلبا میں 340 امریکا چھوڑنے پر سوچ بچار کررہے ہیں۔
سروے کے مطابق ان طلبا میں سے 255 کا کہنا تھا کہ وہ مزید سائنس دوست ممالک کے لیے ملک چھوڑنے پر بھی سوچ بچار کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ سائنس دانوں سمیت دسیوں ہزار وفاقی ملازمین کو عدالتی حکم کے ذریعے نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، جس سے افراتفری پیدا ہوئی اور تحقیقی کام میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
ایک محقق کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے ایک اہم مرحلے پر تحقیقی فنڈنگ میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے سائنسدانوں کی طرح اس طوفان کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکیں اور امریکا سے کسی اور ملک منتقل ہوجائیں۔
امراض قلب کا پتا لگانے والی اے آئی ایپ تیار
تحقیقی کٹوتیوں کی ایک مثال نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ہے، جہاں زچگی کی صحت اور ایچ آئی وی سے متعلق تحقیق کی جاتی ہے، اس ادارے کا تحقیقی بجٹ بھی روک دیا گیا ہے۔