تین ہزار سال قبل قدیم مصری ممی جو چیختے ہوئے چہرے کے ساتھ ملی تھی، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر اس کی موت تشدد کے باعث چیخنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے باقیات کا تجزیہ کرنے پر ماہرین آثار قدیمہ کا اب خیال ہے کہ وہ خاتون روتے ہوئے چل بسی تھیں اور ان کی موت کے فوراً بعد ان کے پٹھے جلد ہی سخت ہو کر جم گئے، جس سے ان کا یہ حالت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ خاتون کی موت کا سبب جو کہ ممکنہ طور پر تشدد ہو سکتا ہے تاہم یہ ایک معمہ ہے۔
مصر کی قاہرہ یونیورسٹی کے کاسر العینی ہسپتال میں ریڈیولوجی کی پروفیسر سحر سلیم نے چیختی ہوئی خاتون کو زندگی کے آخری لمحات کو محفوظ رکھنے والے ’ٹرو ٹائم کیپسول‘ کے طور پر بیان کیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ اس خاتون کا قد 5 فٹ تھا اور موت کے وقت اس کی عمر 48 سال کے قریب تھی جبکہ اسے جوڑوں کی معمولی تکلیف کا سامنا تھا۔
مگر محققین نے حنوط کیے جانے کے عمل کے دوران کی جانے والی سرجری کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں کیے اور اس کے تمام اعضا تاحال جسم کے اندر موجود ہیں۔
پروفیسر سحر سلیم نے بتایا کہ ‘اس دریافت نے مجھے حیران کردیا کیونکہ اس عہد میں لاشوں کو حنوط کرنے کے لیے دل کے سوا تمام اعضا کو نکال دیا جاتا تھا’۔
انہوں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر اس خاتون کو حنوط کرتے ہوئے مہنگی درآمدی اجزا کو استعمال کیا گیا۔
ماہرین کے تجزیے میں juniper اور مہندی کے آثار کو خاتون کے بالوں میں دریافت کیا گیا جبکہ اس کی وگ پر بھی متعدد منرلز کو دریافت کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے نہ صرف حنوط کے عمل، وگ کی تیاری اور مختلف منرلز کے استعمال کا عندیہ ملتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کھلا منہ حنوط کرنے والے ماہرین کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے جو منہ کو بند کرنا بھول گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ خاتون کے چہرے پر موجود تاثر تکلیف دہ موت یا جذباتی تناؤ اور تکلیف سے موت کے دوران چہرہ منجمد ہونے کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حنوط کرنے والے افراد منہ بند کرنے میں ناکام رہے جس کے باعث یہ دہشت انگیز تاثر اب بھی برقرار ہے۔ البتہ وہ ماہرین موت کی حتمی وجہ کا تعین نہیں کرسکے ہیں۔