رنگ انسان کی زندگی کا اہم حصہ ہیں، کیونکہ زندگی بھی ان ہی رنگوں سے رنگین ہوتی ہے، کچھ لوگ ہلکے رنگ پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ افراد تیز اورگہرے رنگوں کا انتخاب کرتے ہیں مگر ایک انوکھا رنگ بھی ہے جو رنگ نہیں ہوتا ۔
ہر ایک رنگ کی اپنی خاصیت اور اہمیت ہوتی ہے، لیکن ایک رنگ ایسا بھی ہے جو جودکھنے میں تو رنگ ہی ہوتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے۔
دنیا میں تقریباً دو سو کے قریب ممالک ہیں اگر ان تمام ممالک کے جھنڈوں کو جمع کیا جائے اور اس کا بغور جائزہ لیں تو ان میں ایک ہی رنگ کی کمی نظر آئے گی اور وہ ہے جامنی۔
جی ہاں !! جامنی رنگ ہی ہے جسے ہم دیکھتے تو ہیں مگر یہ حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتا، یہ رنگ تاریخی طور پر بھی نہ کسی تہذیب کا نشان نہیں رہا اور نہ ہی کسی فوجی لباس کا حصہ۔ تاہم آج کل کی دنیا میں لباس میں یا دوسری جگہوں پر یہ عام ہے۔
کیونکہ ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ اسے خود تخلیق کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب جاننے کیلیے مندرجہ ذیل سطور کا مطالعہ آپ کو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کردے گا۔
اس بات کا مشاہدہ پہلی بار نیوٹن نے کیا تها کہ چیزوں میں رنگ شامل نہیں ہیں بلکہ کسی چیز کی سطح چند رنگوں کی عکاسی کرتی ہے اور ان رنگوں کی تخلیق ان بنیادی رنگوں سے ہوتی ہے۔ جیسے کہ گلاب کے پهول سرخ رنگ کے ہیں اور ویولیٹس کے پهول نیلے رنگ کے ہیں۔
جامنی رنگ سے محبت کرنے والے یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا پسندیدہ رنگ اصل میں موجود نہیں ہے۔ ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ اس رنگ کو خود پیدا کرتا ہے۔
ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے تفصیل سے بتایا کہ جب ہم روشنی کی سرخ اور نیلی طول موج کو بیک وقت دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں اور دماغ الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ دونوں رنگ نظر آنے والے روشنی کے اسپیکٹرم کے مخالف سروں پر ہوتے ہیں۔
نیلے اور سرخ رنگ کا ملاپ
اگرچہ یہ رنگ اس لحاظ سے حقیقی ہے کہ ہم اسے خود دیکھتے ہیں، سائنسی مطالعہ کے مطابق روشنی کی دو مخالف طول موجوں کے درمیان الجھن کو دور کرنے کے لیے دماغ کی کوشش کا نتیجہ ہے، دماغ سپیکٹرم کو ایک دائرے میں موڑتا ہے اور نیلے اور سرخ کو ملا کر جامنی رنگ پیدا کرتا ہے۔
جب روشنی آپ کی آنکھوں میں داخل ہوتی ہے، تو یہ خاص خلیات سے ٹکراتی ہے جسے کونز کہتے ہیں، جو آپ کو رنگ دیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ جب ہم بیک وقت سرخ اور نیلی روشنی کی لہریں دیکھتے ہیں، تو یہ آنکھوں اور دماغ کو الجھن میں ڈال دیتی ہیں کیونکہ یہ دونوں رنگ نظر آنے والے روشنی کے طیف (spectrum)کے مخالف سروں پر واقع ہوتے ہیں۔
اس الجھن کو سلجھانے کے لیے، دماغ طیف کو ایک دائرے کی شکل میں موڑ دیتا ہے، تاکہ سرخ اور نیلا رنگ مل کر جامنی بن جائیں۔
اگرچہ یہ رنگ "حقیقی” ہے اس لحاظ سے کہ ہم اسے دیکھ سکتے ہیں، لیکن یہ دراصل دماغ کی ایک ترکیب ہے جو مخالف روشنی کی لہروں کے درمیان تضاد کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
رینبو (قوس قزح) کے تمام رنگوں کو یاد رکھنے کے لیے ROYGBIV کا مخفف استعمال کیا جاتا ہے:
Red (سرخ)، Orange (نارنجی)، Yellow (پیلا)، Green (سبز)، Blue (نیلا)، Indigo (گہرا نیلا)، اور Violet (بنفشی)۔
یہ تمام رنگ ‘سپیکٹرل’ (spectral) رنگ کہلاتے ہیں، یعنی وہ رنگ جو روشنی کے طیف میں فطری طور پر موجود ہوتے ہیں، اور ہر رنگ کی اپنی مخصوص طولِ موج (wavelength) ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جامنی رنگ اس فہرست میں شامل نہیں ہے، حالانکہ ‘بنفشی’ (violet) کو عام طور پر جامنی سے جوڑا جاتا ہے۔
جب روشنی آپ کی آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو وہ خاص خلیوں سے ٹکراتی ہے جنہیں "کونز” (cones) کہا جاتا ہے۔ یہ کونز رنگوں کو پہچاننے میں مدد دیتی ہیں، اور ان کی تین اقسام ہوتی ہیں، جنہیں
ایس کونز ایم کونز ایل کونز کہا جاتا ہے۔ :
واضح رہے کہ جامنی رنگ، درحقیقت، دماغ کی ایک چالاک چال ہے جو روشنی کی انتہاؤں کو جوڑ کر ایک نیا رنگ تخلیق کرتا ہے — ایک ایسا رنگ جو طیف میں موجود نہیں، لیکن ہماری آنکھ اور دماغ کے لیے بالکل حقیقی محسوس ہوتا ہے۔