تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

ہوا میں کرونا وائرس کی موجودگی، عالمی ادارہ صحت نے نظرانداز کردی

واشنگٹن : دنیا بھر کے سائنس دانوں نے عالمی ادارہ صحت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے ذرات ہوا میں پھیلنے کے پہلو کو نظرانداز کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی وبا نے گزشتہ چھ ماہ سے دنیا بھر میں بتاہی پھیلائی ہوئی ہے جس کے باعث اب تک پانچ لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو یہ وائرس متاثر کرچکا ہے۔

وائرس سے متعلق عالمی ادارہ صحت اور یو ایس سینٹر فار ڈیزیز نے کہا تھا کہ وائرس صرف دو طرح سے پھیل سکتا ہے، آپ کسی کرونا مریض کے قریب ہوں اور کھانس دے اور کھانسی کی بوندیں آپ تک آجائیں تو آپ متاثر ہوسکتے ہیں اور دوسرا کسی آلودہ جگہ کو چھونے کے بعد اپنے آنکھ، ناک اور منہ کو چھو لیں۔

ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا تیسرا راستہ بھی ہے جسے عالمی ادارہ صحت نے نظر انداز کردیا ہے اور وہ نقطہ زیادہ خطرناک ہے۔

ماہرین نے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وائرس کے ذرات ہوا میں آبی قطروں کی طرح کافی دیر تک اور درجنوں فٹ دوری تک تیرتے رہتے ہیں اور ایسی صورتحال میں وہ کمرے جس میں ہوا گزرنے کا درست نظام موجود نہ ہو، بسیں اور محدود جگہیں انتہائی خطرناک ہیں حتیٰ کہ ایسی صورتحال میں چھ فٹ کا سماجی فاصلہ بھی کرونا سے متاثر ہونے سے نہیں روک سکتا۔

آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کی پروفیسر لیڈیا موراسکا کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ کرونا کے ذرات آؓبی قطروں کی صورت میں بہت دیر تک ہوا میں تیرتے رہتے ہیں۔

پروفیسر لیڈیا موراسکا نے اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کو ایک اوپن لیٹر بھی ارسال کیا ہے جس میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس خطرناک پہلو کو نظر انداز کے معاملے کو اٹھایا ہے۔

پروفیسر کی جانب سے ارسال کردہ لیٹر پر 32 ممالک کے 239 تحقیق کاروں نے دستخط بھی کیے ہیں، جسے اگلے ہفتے سائنسی جریدے میں شائع کیا جائے گا۔

Comments

- Advertisement -