کراچی: مقررین نے کہا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت دن بدن بڑھتا جارہا ہے، ملک میں سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے اقلیتوں کو ملک میں مساوی حقوق دینا ہوں گے،تعلیمی نظام میں مذہبی تفریق کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلتیوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی اور بہتر تعلقات کو فروغ دیا جاسکے، عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے سوسائٹی کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد، سینئر صحافی وسعت اللہ خان،مذہبی اسکالر خورشید ندیم، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود، رومانہ بشیر، سید احمد بنوری، ڈاکٹرخالدہ غوث نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے ’’ سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں اساتذہ کا کردار‘‘ کے عنوان سے مقامی ہوٹل میں منعقدورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ورکشاپ کی صدارت سینئر صحافی غازی صلاح الدین نے کی۔
ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ نظری ایشوز سے استاد معاشرے کی اور نصاب ریاست کی نمائندگی کررہا ہے، ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ گیا ہے، ریاستی آئین کے ذریعے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش ہوتی ہے, سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری ماضی کی نسبت اب نہ ہونے کے برابر ہے، ماضی میں لوگوں میں برداشت کامادہ موجودتھالیکن اب تحمل،بردباری،اقلیتوں کے ساتھ مذہبی رواداری کاعنصرختم ہوتاجارہا ہے۔
عدم برداشت اور میڈیا کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ آئین ہمیں بہت سارے بنیادی حقوق دیتا ہے، تعلیم،صحت،بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کاحق آئین نے دیا کسی بھی ملک کی ریاست 100 فیصد اس کی پاسداری نہیں کرتی آئین بنانے والے ایک ہاتھ سے حقوق فراہم کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اسے واپس بھی لے لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا ہر چیز کو سو فیصد ہائی لائٹ نہیں کرتا، میڈیا کو جو حقیقت میں نظر آرہا ہے وہ اسے بھی مکمل نہیں دکھاتا سچ سننے، کہنے اور بولنے کا حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں مسائل بڑھ رہے ہیں، اقلیتوں کودرپیش مسائل پرکوئی بات کرنے کوتیار نہیں ہے۔
رومانہ بشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو سوئپر،پلمبر اور کلینر کی نوکریاں دی جاتی ہیں ملک میں کسی بھی اعلیٰ عہدوں پر انہیں ملازمتیں فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے اقلیتوں میں احساس کمتری کاعنصرپایاجاتاہے، قائداعظم محمدعلی جناح نے 11 اگست کی آخری تقریر میں پاکستان کے تمام لوگوں کےلیے برابری کے حقوق کی بات کی، 70سال بعد بھی اقلیتوں کا سوال یہی ہے کہ ہمیں کب برابری کے حقوق ملیں گے۔
اس موقع پر سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ اگر اسلام عالمگیر مذہب ہے تو اس میں گنجائش پیدا کرنا ہوگی، مسلم امہ کےلیے موجودہ فکری چیلنج یہ ہے کہ کیاآپ الگ رہناچاہتے ہیں یاساری دنیاکے ساتھ رہنے کو ترجیح دیں گے، ماضی میں لوگوں غیرمسلموں کے علاقوں سے مسلم آبادیوں کی جانب ہجرت کرتے تھے، آج صورتحال اس کے برعکس ہے،مذہبی منافرت کے خاتمہ کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔
ورکشاپ سے سینئر صحافی سبوخ سید،راناعامر،محمداسماعیل خان ودیگر نے بھی خطاب کیا۔