اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے اعتراضات کو درست قرار دے دیا۔
رہنما جمعیت علمائے اسلام (ف) حافظ حمد اللہ کے بیان پر ردعمل میں عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ صدر مملکت نے مدارس رجسٹریشن بل پر جو اعتراضات لگائے وہ آئینی و قانونی ہیں، اعتراضات میں فیٹف کا ذکر ہے اور نہ کوئی تعلق ہے۔
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ قانونی اور آئینی معاملات پر سیاست کرنا کسی کے حق میں نہیں، صدر مملکت نے آئینی اعتراضات لگائے تصحیح بھی آئینی طور پر پارلیمان سے ہونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن بل کو فیٹف سے جوڑنا بے سروپا تخیّل اور خیال آرائی کے مترادف ہے، قانون سازی کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے، بیان بازی، تنقید سے صدر اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو ہدف بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ’مولانا فضل الرحمان کا مدارس بل پاس ہوا تو 18 ہزار مدارس ختم سمجھیں‘
گزشتہ روز ترجمان جے یو آئی (ف) نے کہا تھا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے مدارس بل پر اعتراضات حیران کن ہیں کیونکہ اعتراضات کا طریقہ قانون کے مطابق نہیں۔
ترجمان نے کہا تھا کہ صدر مملکت کے اعتراضات آئین میں دی گئی مدت کے اندر نہیں ہیں، اعتراضات قسطوں میں ہوئے ایک بار اعتراضات کا جواب دیا گیا دوبارہ حق نہ تھا، اعتراضات اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجنے چاہیے تھے جبکہ نہیں بھیجے گئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جو اعتراض اسپیکر کو بھیجا گیا تھا اس کا جواب دے دیا گیا تھا، اسپیکر آفس کے جواب پر ایوان صدر نے اپنے اعتراضات پر دوبارہ زور نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کی جانب سے مجوزہ ترمیم پر اعتراض کے ساتھ تجاویز اور حل بھی بھیجا جاتا ہے، مدارس بل میں کوئی تجاویز اور حل نہیں بتائی جا رہیں، لگتا ہے کہ ایوان صدر بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے مدارس رجسٹریشن بل پر 8 اعتراضات اٹھائے گئے اور پہلے سے موجود قوانین کا حوالہ دیا گیا۔
اعتراضات میں کہا گیا کہ نئے بل کی مختلف شقوں میں مدرسے کی تعریف تضاد ہے، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 موجود ہے، نئی قانون سازی ممکن نہیں، اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 بھی موجود ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ مدارس کو سوسائٹی رجسٹر کرانے سے تعلیم کے علاوہ استعمال بھی کیا جاسکتا ہے، رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہوگا اور ایک ہی سوسائٹی میں بہت مدرسوں سے امن کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہوگا۔
اعتراضات میں کہنا تھا کہ سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، ایف اے ٹی ایف، دیگر عالمی ادارے اپنی آرا اور ریٹنگز میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 میں دینی تعلیم داخل نہیں ہے، فائن آرٹ تعلیم داخل ہے، دینی تعلیم اور فائن آرٹ رکھتے ہیں تو تنازع ہوگا اور سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ سے مختلف نکتہ نظر رکھنے والوں کا تنازع ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن اس ایکٹ کےذریعے شروع کیا تو قانون کی گرفت کم ہوسکتی ہے، قانون کم اور من مانی زیادہ ہوگی، مدارس سے متعلق بل بنانے کیلئے عالمی سطح کے امور کو مدنظر رکھا جائے، مجوزہ بل منظور ہونے سے عالمی سطح پر پابندیوں کا خدشہ ہے۔