اسلام آباد : سینیٹ میں متنازع پیکا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی اور احتجاج کرتے ہوئے واک آوٹ کیا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ اجلاس کی صدارت ڈپٹی چئیرمین سیدال خسن نے کی، اجلاس میں متنازع پیکا ترمیمی بل پیش کیا گیا۔
جس پر صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کردیا، سینیٹ میں بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا اور ایوان میں شور شرابہ بھی کیا۔
اپوزیشن اراکین نے بل کا کاپیاں پھاڑ پھینکیں، قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے کہا کہ ہم اس بل کی حمایت نہیں کررہے، وزیر کی باتیں درست ہیں کہ جھوٹ پرمبنی خبر پھیلانے کو کوئی سپورٹ نہیں کرتا، کوئی شراکت دار اس میں شامل نہیں۔
’حکومت نے پیکا آرڈیننس پر میڈیا سے دھوکا کیا‘
ان کا کہنا تھا کہ بل کا طریقہ کار درست نہیں، جو کیسز ہیں اس کے لیے نہ ادارہ بنا، نہ جج ہیں، نہ وکیل۔
جے یو آئی کے کامران مرتضی نے کہا کہ کہ پیکا ایکٹ پر میری ترامیم تھیں جنہیں نہ کمیٹی نے منظور کیا گیا اور نہ ہی مسترد کیا گیا، یہ قائمہ کمیٹی کی نامکمل رپورٹ ہے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے فلک ناز چترالی کو ایوان سے نکالنے کی تنبیہ بھی کی۔
سینیٹر فلک ناز نے کہا ہاؤس کو یرغمال بنالیا گیا، مذاق بنا ہوا ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان نے بھی پیکا ایکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔
ایمل ولی خان نے کہا پیکا ایکٹ کے ذریعے بولنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے، میڈیا سے مشاورت تک نہیں کی گئی، ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔
خیال رہے ترمیمی بل کے تحت اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اتھارٹی کے سابق اراکین ہوں گے۔
بیچلرز ڈگری ہولڈر اور فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ کار اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا اور چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی 5 سال کے لیے کی جائے گی۔
حکومت نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پانچ اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجنئیر بھی شامل ہوں گے۔
اس کے علاوہ اتھارٹی میں ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔