اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کی جانب سے چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور ممبران کو طلب کر لیا گیا۔
قائمہ کمیٹی توانائی کا سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیرِ صدارت اجلاس ہوا جس میں چیئرمین نیپرا اور ممبران کو فوری طلب کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ٹیرف عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا، چیئرمین نیپرا غیر سنجیدہ کیوں ہیں؟
کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ کمیٹی اجلاس کا باقی ایجنڈا مؤخر کر کے بلز کا معاملہ سر فہرست رکھا جائے۔ اجلاس میں کے- الیکٹرک حکام نے بتایا کہ بجلی بلز میں اضافے کے بعد کے-الیکٹرک تنصیبات پر حملے ہو رہے ہیں۔
اس پر ارکان کمیٹی نے کہا کہ اس وقت بجلی بلز میں اضافے کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں، ملک سول نافرمانی کی طرف جا رہا ہے۔
کمیٹی ارکان نے سیکریٹری پاور ڈویژن کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے آئی پی پیز سے متعلق معلومات کیلیے پاور ڈویژن کو پرفارما فراہم کر دیا۔
پاور ڈویژن حکام نے اجلاس کو بتایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، حکومت نے ریلیف صارفین کو پاس کر دیا، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات وزارت خزانہ کر رہی ہے، اس کے ساتھ تمام شرائط پر عمل درآمد کرنا ہے۔
اجلاس میں پاور ڈویژن حکام نے بریفنگ دی کہ پاور سیکٹر کیلیے 976 ارب جبکہ تقسیم کار کمپنیوں کیلیے 158 ارب کی سبسڈی رکھی گئی ہے، کے-الیکٹرک کیلیے 169 ارب رکھے گئے ہیں۔
حکام کے مطابق پاور ہولڈنگ کمپنی کے سود کی مد میں 82 ارب شامل ہیں، کے-الیکٹرک کیلیے 126 ارب روپے کی اضافی سبسڈی بھی شامل ہے۔
اجلاس میں آئی پی پیز کو 10 سالہ ادائیگیوں کا ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا۔ اراکین نے کہا کہ آئی پی پیز کو ادائیگیوں کی 10 سالہ تفصیل دی جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سی پی پی اے کے پاس ریکارڈ نہیں تو ادائیگیاں کس طرح کی گئیں؟
اراکین نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کس بنیاد پر ادائیگیاں ہوئیں، 44 ہزار 900 میگاواٹ انسٹالڈ کیپسٹی کی تفصیل بھی دی جائے۔