اتوار, جون 29, 2025
اشتہار

جدید دنیا سے بیزار الگ تھلگ آباد ہندوستانی قبیلہ

اشتہار

حیرت انگیز

سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج اور انسانی ترقی کے باعث دنیا ’گلوبل ویلیج‘ بن گئی ہے، مگر آج بھی کئی قبائل، شہروں اور آبادیوں سے الگ تھلگ آباد ہیں اور ان کا دنیا سے کوئی واسطہ نہیں۔ ایسا ہی ایک قبیلہ بھارت میں جزائر انڈیمان اور نکوبار کے ساتھ ”sentinel island“ میں آباد ہے۔

مؤرخین کے مطابق سولہ ہزار سال قبل یہ لوگ افریقا سے یہاں آئے اور اب تک ’قرنطینہ‘ کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جب کہ بعض اسے 60 ہزار سال قدیم قبیلہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس قبیلے کا ذکر مشہور سیاح مارکو پولو نے بھی کیا ہے۔

جزیرے کا رقبہ ساٹھ مربع کلومیٹر اور آبادی بمشکل دو تین سو افراد پر مشتمل ہے۔ کئی بار حکومتوں، تنظیموں، سیاحوں اور عوام کی جانب سے قبیلے کے لوگوں سے رابطے اور معلومات کی کوششیں کی گئیں، مگر ہر بار ہی تیروں اور نیزوں سے جواب ملا، کیوں کہ وہ لوگ انسانوں سے خائف ہیں اور دنیا سے قطعاََ رابطہ نہیں چاہتے۔ آزادی سے قبل کمپنی سرکار نے جزیرے میں مداخلت کی اور یہاں سے چار بچّے اور دو مرد بھی اٹھا لائی، جب کہ باقی لوگ جھونپڑیاں چھوڑ کر جنگل میں چھپ گئے۔ دو دن میں دونوں مرد مر گئے تو بچّوں کو واپس وہیں چھوڑ دیا گیا۔

ڈاکٹرز کے مطابق وہ لوگ ہزاروں برس سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے ہماری آبادیوں میں نہیں رہ سکتے۔ ان کا اپنا طرزِ حیات اور بہت محدود قوتِ مدافعت ہے، پھر ایک عیسائی مبلغ نے جزیرے میں جانے کی کوشش کی، جسے جنگلی باشندوں نے پکڑ کر ہلاک کر دیا۔ تاہم انہوں نے بلاوجہ کسی شخص یا کسی آبادی کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ وہ صرف اپنا دفاع کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں وہاں جا کر قبیلے سے رابطوں پر پابندی لگا دی گئی، پھر بھی دور ساحل سے سیاح دوستانہ رابطوں کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اکثروہاں جا کر پھل اور تحائف پھینک آتے ہیں، جنہیں وہ لوگ جنگل سے نکل کر اٹھاتے، ناچتے اور ننگ دھڑنگ بھاگتے دیکھے جاتے ہیں۔

ان لوگوں کی زبان، رسومات، لباس اور مذہب کا کچھ علم نہیں ہو سکا۔ صرف ایک بار 20 سال پہلے مدھو مالا خاتون نے حیرت انگیز طور پر اس جزیرے کے لوگوں سے کام یاب دوستانہ رابطہ کیا اور کافی دیر جنگل میں رہی اور بہت سا سامان بھی انہیں دیا۔ تاہم بعد ازاں وہ لوگ ایسے رابطوں پر امادہ نہ ہوئے، حتٰی کہ نیشنل جیوگرافک جیسے چینل بھی اس جنگل کے اندر جانے میں کام یاب نہیں ہوئے۔ ہمارے نزدیک وہ جنگلی، پس ماندہ اور وحشیانہ زندگی گزار رہے ہیں، مگر وہ اپنی زندگی سے خوش ہیں۔

(امجد محمود چشتی، میاں چنوں)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں