بھارت کے بڑے شہر بھوپال کا ایک درزی جو رات کو ایک سیریل کلر کا روپ دھار لیا کرتا تھا، قاتل کی وارداتوں سے علاقہ پولیس بھی چکرا کر رہ گئی۔
مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال کے ایک علاقے میں واقع چھوٹی سی دکان میں آدیش کھمارا نامی درزی جو دِن میں کپڑوں کی سلائی کا کام کرتا اور رات کے وقت جب وہ سونے جاتا تھا تو اس کے ذہن میں خوفناک وارداتیں انجام دینے کے خیالات گردش کرنے لگتے تھے۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ داستان سال 2010 سے شروع ہوئی جب امراوتی ،ناسک اور مدھیہ پردیش کے مختلف مقامات سے لاوارث لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر، اتر پردیش اور بہار میں بھی کئی لاشیں برآمد ہوئیں۔
کسی کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ان بھیانک وارداتوں کے پیچھے ایک ہی سیریل کلر کا ہاتھ تھا، ان 33 مقتولین میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ سب ٹرک ڈرائیور تھے یا ان کے معاون اور کلینر وغیرہ۔
منڈی دیپ کے رہنے والے ایک درزی پر کسی کو شک تک نہ گزرا کیونکہ سیریل کلر اس صفائی سے واردات کیا کرتا کہ پیچھے کوئی ایسی نشانی نہیں چھوڑتا کہ پولیس یا کسی اور کو اس تک رسائی ملے۔
تاہم کئی دنوں تک خاک چھاننے کے بعد ایک خاتون پولیس اہلکار نے 3 دن تعاقب کے بعد بالآخر اس پراسرار سیریل کلر آدیش کھمارا کو حراست میں لے ہی لیا، اتر پردیش کے سلطان پور کے ایک جنگل سے گرفتار کیے جانے والے ملزم نے دوران تفتیش ایسے انکشافات کیے کہ پولیس بھی حیرت زدہ رہ گئی۔
جس کے بعد مختلف ریاستوں میں سرد خانے میں پڑی قتل کے واقعات کی فائلیں دوبارہ کھل گئیں۔ ملزم نے 33 لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا جو تمام ٹرک ڈرائیور یا ان کے مددگار تھے۔
بھوپال پولیس کے مطابق آدیش کھمارا نے ان کی ٹرک ڈرائیوروں لاشیں ویران علاقوں میں پھینک دیں اور ٹرکوں کو فروخت کر دیا تھا اور لوٹا ہوا سامان مقامی گروہوں کی مدد سے فروخت کیا جاتا تھا۔
ملزم کھمارا جو پیشے کے لحاظ سے درزی تھا، نے گرفتار ہونے کے بعد اعتراف کیا کہ یہ وارداتیں 2007 سے اگست 2018 کے درمیان مختلف ہائی ویز پر کی گئی تھیں۔ کھمارا کے گروہ کے افراد ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ کھانے کی جگہوں پر دوستی کرتے، بعد ازاں انہیں نشہ آور ادویات دے کر بے ہوش کرتے اور پھر ان کا قتل کر دیتے۔
پولیس تحقیقات کے مطابق سیریل کلر کھمارا کے ساتھ منسلک صرف دو گروہوں کی تفصیلات ملی ہیں، کھمارا کے ساتھ بہت سے لوگ وابستہ تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے الگ گروہ بنائے، جس کی وجہ سے گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان گروہوں کو ٹاٹا ٹرکوں سے خاص دلچسپی تھی کیونکہ ان کی رفتار اچھی ہوتی تھی اور فی ٹرک 2 لاکھ سے 3 لاکھ روپے میں فروخت ہوتا تھا۔