شبنم شکیل کی شاعری میں نسائی جذبات اور وہی رنگ غالب ہے جو اردو زبان میں اکثر شاعرات کے ہاں دیکھا جاتا ہے، مگر شبنم شکیل کی شاعری میں روایت کے ساتھ منفرد انداز بھی ان کی پہچان ہے۔
1960ء کی دہائی میں شاعری سے پہچان بنانے والی شبنم شکیل نے غزل گوئی کو اہمیت دی۔ شبنم شکیل نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد سید عابد علی عابد لاہور کے ادبی اور تعلیمی حلقوں میں ایک مقتدر شخصیت تھے۔ عابد صاحب شاعر، محقق، نقاد اور کئی ادبی حیثیتوں میں ممتاز تھے۔ انھوں نے زبان و بیان اور فن و شخصیت پر کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ شاعرہ، ادیب و نقاد شبنم شکیل انہی کی صاحب زادی تھیں اور ماہرِ تعلیم بھی مشہور تھیں۔ 2 مارچ 2013ء کو شبنم شکیل اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔
لاہور میں 12 مارچ 1942ء کو پیدا ہونے والی شبنم شکیل نے ابتدائی تعلیمی درجات کی تکمیل کے بعد اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن مکمل کی۔ اس کے بعد اورینٹل کالج، لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ بطور لیکچرر تدریس کے لیے ایک کالج سے وابستہ ہوگئیں۔
شعر و شاعری کا شوق تو شبنم شکیل کو اپنے والد کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب کہ کم عمری ہی میں مطالعے کی عادی ہوچکی تھیں اور اسی نے ان کے دل میں لکھنے اور ادب میں نام و مقام بنانے کی لگن بھی پیدا کردی۔ قلم تھاما تو حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور پھر شبنم شکیل کے تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب 1965ء میں شائع ہوگئی جس کے بعد یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا۔ شاعرہ اور نقاد شبنم شکیل نے اپنے فنی اور تخلیقی سفر میں متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے جن میں 2004ء میں پرائڈ آف پرفارمنس بھی شامل ہے۔ وہ کئی اداروں سے وابستہ رہیں اور متعدد تنظیموں کی اہم رکن تھیں۔ تاہم وہ کسی ادبی تحریک کا باقاعدہ حصہ نہیں بنیں۔
ان کے شعری مجموعے، مضامین اور افسانوں پر مشتمل کتابیں شب زاد، اضطراب اور مسافت رائیگاں تھی، تقریب کچھ تو ہو، نہ قفس نہ آشیانہ، اور آواز تو دیکھو کے نام سے شایع ہوئیں۔ شبنم شکیل اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔
اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو