جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔
اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔ چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجئے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔۔۔ابھی آیا۔۔۔ کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔
یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیئے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے اُنہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔ دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیزمیں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔ اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چھپا رہا ہو تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔
( مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب مزید حماقتیں سے اقتباس)