جمعرات, مارچ 20, 2025
اشتہار

مزاح‌ نگاری میں نمایاں مقام رکھنے والے شفیق الرحمٰن کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

شفیق الرحمٰن کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے مزاح نگاروں میں کیا جاتا ہے لیکن وہ ایک عمدہ افسانہ نگار بھی تھے۔ 19 مارچ 2000ء میں شفیق الرحمٰن انتقال کرگئے تھے۔

9 نومبر 1920ء کو کلا نور ضلع روہتک میں پیدا ہونے والے شفیق الرحمٰن نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ وہ قیام پاکستان سے قبل ہی اپنا ادبی سفر شروع کرچکے تھے۔ انھوں نے برطانوی دور میں فوج کے شعبۂ طب سے وابستگی اختیار کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج میں خدمات انجام دیں اور میجر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔ ان کو لڑکپن اور جوانی میں سیر و سیاحت، کرکٹ، باکسنگ اور تیراکی میں دل چسپی رہی اور کارٹون، مصوری اور فوٹوگرافی بھی ان کا شوق تھا۔ ان کی پہلی کتاب کرنیں 1938 میں اس وقت سامنے آئی جب وہ میڈیکل کے طالب علم تھے۔ 1942 میں انڈین میڈیکل سروس سے جڑنے کے بعد دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر جانے کا موقع ملا تو کئی ممالک کی سیر بھی کی۔ بذلہ سنج اور نکتہ بیں شفیق الرحمٰن نے اپنے ان اسفار اور واقعات سے بڑی چابک دستی سے مزاح پیدا کیا اور مقبول ہوئے۔ ستمبر 1979 میں فوج کی میڈیکل سروسز ریٹائر ہوئے۔ دسمبر 1980 میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور سبک دوشی کے بعد راولپنڈی میں زندگی گزاری۔

شفیق الرّحمٰن کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ شگوفے 1943ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا۔ بعد میں دیگر کتب لہریں، مدوجزر، پرواز، حماقتیں، پچھتاوے، مزید حماقتیں، دجلہ، کرنیں اور دریچے شایع ہوئیں اور انھیں‌ ملک گیر شہرت اور پذیرائی ملی۔ ایک ناولٹ اور افسانوں کے مجموعے کے علاوہ ان کے ترجمہ کردہ ناول بھی کتابی صورت میں سامنے آئے، معاشیات اور صحّت و امراض سے متعلق بھی ان کی کتب شایع ہوئیں۔

مزاح نگاری کے ساتھ ڈاکٹر شفیق الرّحمٰن نے افسانے بھی لکھے جن پر رومانوی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ان کے لیے ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا تھا۔ مزاح نگار شفیق الرحمٰن راولپنڈی کے ایک فوجی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں