بلّیاں سلطنت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ چناں چہ بلّیوں پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ بلّیوں کی کئی قسمیں بتائی گئی ہیں۔ جو لوگ بلّیوں قسمیں گنتے رہتے ہیں ان کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔
بلّیاں پالنے والوں کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ بلّی انہیں خواہ مخواہ چاہتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ بلّی کے قیام و طعام کا بندوبست کرتے ہیں۔ کاش کہ ایسا ہی ہوتا۔
بلّیاں دو ہفتے کی عمر ہی میں ناز و انداز دکھانا شروع کر دیتی ہیں بغیر کسی ٹریننگ کے۔ سنا ہے کہ کچھ بلّیاں دوسری بلّیوں سے خوب صورت ہوتی ہیں، بعض لوگ سیامی بلّی کو حسین سمجھتے ہیں (ایسے لوگ کسی چیز کو بھی حسین سمجھنے لگیں گے۔) الگورہ کی بلّی کی جسامت اور خد و خال کتے سے زیادہ ملتے ہیں۔ ویسے ایرانی بلّی ایک اچھی آل راؤنڈر بلّی کہی جا سکتی ہے۔ لیکن ایران میں ایرانی بلّیوں پر غیر ملکی بلّیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سُدیشی بدیسی کا سوال ہر جگہ ہے۔ ویسے ایرانی بلّی بھی تماشا ہے۔ کبھی گریہ ’مسکین بن جاتی ہے اور کبھی ”نہ میں کہ چوں گر بہ عاجز شود“ شاید ایرانیوں نے اپنی بلّی کو نہیں سمجھا۔ یا شاید سمجھ لیا ہے۔
بلّیاں میاؤں میاؤں کرتی ہیں۔ قنوطی بلی می می می آوؤں کہتی ہے تاکہ ہر ایک سن لے۔ جب بلّی زیر لب بڑبڑانا شروع کر دے اور تنہائی میں دیر تک بڑبڑاتی رہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین دن گزار چکی ہے۔ گرمیوں میں بلّیاں پنکھے کے نیچے سے نہیں ہلتیں۔ سردیوں میں بن ٹھن کر ربن بندھوا کر دھوپ سینکتی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا مقصد یہی ہے۔ بلّی کا بورژوا پن نو عمر لڑکے لڑکیوں کے لیے مہلک ہے۔ انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ جو کچھ بلی کے لیے مفید ہے وہ سب کے لیے مفید ہوگا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ بلّیاں اتنی مغرور اور خود غرض کیوں ہیں میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو محنت کیے بغیر ایسی مرغن غذا ملتی رہے، جس میں پروٹین اور وٹامن ضرورت سے زیادہ ہوں تو آپ کا رویہ کیا ہوگا؟
بلّی دوسرے کا نقطۂ نظر نہیں سمجھتی۔ اگر اسے بتایا جائے کہ ہم دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے آئے ہیں تو اس کا پہلا سوال یہ ہوگا کہ دوسرے یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟
تقریباً سال بھر میں بلّی سدھائی جاسکتی ہے۔ مگر سال بھر کی مشقت کا نتیجہ صرف ایک سدھائی ہوئی بلّی ہو گا۔ جہاں بقیہ چوپائے دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہیں وہاں بلّی دودھ پینے والے جانوروں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر غلطی سے دودھ کھلا رہ جائے تو آپ کی سدھائی ہوئی بلّی پی جائے گی۔ اگر دودھ کو بند کر کے قفل لگا دیا جائے تب بھی پی جائے گی۔ کیوں کر؟ یہ ایک راز ہے جو بلّیوں تک محدود ہے۔
(مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)