اسلام آباد: وفاقی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکاسےروکی گئی امدادپربات چیت شروع ہونےکاامکان ہے، امریکی صدر نے افغانستان کے معاملے پر پاکستان کےکردارکو سراہا اور مدد طلب کی ہے، زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورے کے بعد مذاکرات میں مزید پیشرفت ہوگی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نےحکومت سنبھالی تو امریکاسے تعلقات اچھے نہیں تھے مگر امریکی صدر نے ایک سال میں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا روز اول سے ایک ہی مؤقف رہا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، دیرپا امن کے لیے سیاسی راستہ نکال کر سب کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا اور ایک دوسرے کے تحفظات کو ختم کرنا ہوگا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’افغان طالبان کو افغان شہری سمجھ کران کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، زلمےخلیل زاد پاکستان کا دورہ کرچکے،مذاکرات پرپیشرفت ہوگی جس کے بعد پاک امریکا سے تعلقات معمول پر آجائیں گے اور روک ہوئی امداد پر بھی بات چیت کا آغاز ہوگا‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغان امن کے لئے پاکستان معاون کا کرداراداکررہاہے کیونکہ اگر وہاں پر امن و استحکام نہیں ہوگا تو ہم بھی متاثر ہوں گے، تاپی کاسا منصوبے پر عمل درآمد کر کے ہی افغانستان میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک فوج نےافغان بارڈرپراپنےحصےکوکلیئرکیا، امریکی صدرنے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا اور پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کی۔
بھارت کے حوالے سے گفتگو
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’بھارت میں سدھوکےسرکی قیمت مقررکرنا افسوسناک بات ہے، ایک ایسے شخص کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس نے دونوں ممالک کی دوریاں ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ بھارتی کابینہ کاخصوصی اجلاس بلاکر کرتار پور راہداری منصوبےکی منظوری دی گئی اور انہوں نے دو وزیروں کو بھی افتتاحی تقریب میں پاکستان بھیجا‘۔
وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہرجگہ ایک طبقہ پایا جاتا ہےجس کی سوچ منفی ہوتی ہے، راہداری منصوبےکے اقدام کو ہرجگہ سراہاگیاہے مگر بھارت کے انتہاء پسندوں کو افتتاحی تقریب پسند نہ آئی‘۔