تازہ ترین

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

پیٹرول یکم مئی سے کتنے روپے سستا ہوگا؟ شہریوں کے لیے بڑا اعلان

اسلام آباد: یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں...

وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقات

ریاض: وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد اور...

پاکستان کیلیے آئی ایم ایف کی 1.1 ارب ڈالر کی قسط منظور

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان...

ہمارے لیے قرضوں کا جال موت کا پھندا بن گیا ہے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے...

ایران کا وہ محل جسے رضا شاہ پہلوی اور فرح دیبا نے آباد کیا تھا

سیر و سیّاحت کی غرض سے دنیا بھر میں پُرفضا مقامات کے علاوہ لوگ بالخصوص قدیم اور دورِ‌ جدید کی ان عمارتوں یا ان کے کھنڈرات کو بھی ضرور دیکھنے جاتے ہیں، جو کسی دور میں بادشاہوں‌، سلاطین اور امراء کے زیرِ استعمال رہے ہوں۔

قدیم دور کے قصرِ شاہی اور قلعے، باغات اور بارہ دری ہی نہیں گزشتہ صدی تک بھی فرماں روا اور رؤساء نے پُرشکوہ محلات اور پُرتعیش رہائش گاہیں تعمیر کروائی ہیں جن میں‌ ایران میں سعد آباد کمپلیکس کا وائٹ پیلس بھی شامل ہے۔

تہران کا سعد آباد کمپلیکس 110 ہیکٹر پر واقع ہے جس میں 18 محلات ہیں جہاں قاچار اور پہلوی شاہی خاندان مقیم رہا۔ اسے قاچار بادشاہ نے 19 ویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ بعد میں اس میں توسیع کی گئی اور دوسرے پہلوی بادشاہ نے اسے استعمال کیا۔

وہائٹ پیلس وہ عام نام ہے جس سے دنیا کی کئی پُرشکوہ کے علاوہ قدیم اور موجودہ دور کے اہم سرکاری دفاتر یا کسی نمایاں عمارتوں کو شناخت کیا جاتا ہے خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کی جا رہی ہوں۔ اکثر عام لوگ بھی اپنے گھروں کو مکمل طور پر سفید رنگ کروانے کے بعد اس کی پیشانی پر وہائٹ ہاؤس لکھ دیتے ہیں، لیکن ہم جس وہائٹ ہاؤس کی بات کررہے ہیں یہ عمارت رسومات اور سرکاری امور کی انجام دہی کے علاوہ پہلوی خاندان کے دوسرے بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی اور ملکہ فرح دیبا کے لیے موسمِ گرما میں پسندیدہ قیام گاہ بن جاتی تھی۔

ایران میں یوں تو کئی صدیوں پرانے محل، قلعے اور دیگر عمارتوں‌ کے آثار اور کھنڈرات موجود ہیں‌، لیکن اٹھارھویں اور انیسویں صدی عیسوی کے تاریخی مقامات میں شاہی خاندان کی یادگار عمارتیں بھی دیدنی ہیں۔ کمپلیکس میں وہائٹ ہاؤس کو اس خاندان کے پہلے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے 1932ء میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا جو 1937ء میں مکمل ہوا۔ شاہی خاندان نے اس محل کی عمارت کو 1940ء میں‌ آباد کیا تھا۔

محل کا رقبہ پانچ ہزار مربع میٹر ہے جس میں تہ خانے کے علاوہ دو منزلیں بنائی گئی تھیں۔ اس محل کا ڈیزائن خورسندی نے بنایا تھا۔ عمارت کو 54 کمروں کے ساتھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں‌ شاہی خاندان کی خاص تقریبات کے لیے دس کشادہ کمرے رکھے گئے ہیں جب کہ ایک سب سے بڑا ڈائننگ روم 220 مربع میٹر پر محیط ہے۔

ایران کے اس وائٹ پیلس کے سامنے ایران کے مشہور افسانوی کردار آرش کمان گیر کا مجسمہ بھی موجود ہے۔ یہ ایرانی لوک کہانیوں کا وہ کردار ہے جسے اس کی بہادری اور دلیری نے عوام میں مقبول بنایا۔

وہائٹ ہاؤس کی اس عمارت میں ایک بلیئرڈ روم بھی موجود ہے جو اس دور میں‌ شاہوں اور امراء میں مقبول کھیل تھا۔ اس کی دیواریں لکڑی کی ہیں جب کہ اس کمرے کی لائٹیں 19 ویں صدی کے آخر میں انگلینڈ سے منگوائی گئی تھیں۔ اس کمرے میں ایک بڑا گلوب بھی ہے، جو اس دور کی دنیا کا نقشہ بتاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی تاش کھیلنے کی میز کے ساتھ ساتھ یہاں وہ وائن گلاس بھی موجود ہیں جو چیکوسلوواکیہ کے مصنوعہ ہیں۔

اس محل میں ایک شاہی بیٹھک بھی ہے جس کی دیواروں پر کپڑا چڑھا ہوا ہے جب کہ اس میں کرسٹل کا ایک قیمتی اور نہایت معیاری فانوس بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ شاہی محل میں 20 صدی میں مشہد میں تیّار کردہ قالین اور جرمنی سے منگوایا گیا ایک رنگین ٹیلی ویژن سیٹ بھی موجود ہے۔ اگر آپ وائٹ پیلس کو باہر سے دیکھیں‌ تو اسے شاہی محل کہنا کسی طور درست نہیں‌ لگے گا، لیکن اس کے اندر داخل ہونے کے بعد یہاں کا طرزِ تعمیر، کمروں میں‌ موجود قیمتی اشیاء، راہ داریاں اور سہولیات آپ کو یہ کہنے پر آمادہ کر لیتی ہیں کہ یہ جدید دور کا ایک شاہی محل ہے۔

ایران کے شاہی خاندان کی اس قیام گاہ کی دوسری منزل پر ملکہ کا بیڈ روم، گرینڈ ڈائننگ ہال، خانۂ تقریب، کشادہ دیوانِ‌ موسیقی کے علاوہ ملکہ فرح دیبا کا کمرہ اور بادشاہ کا کمرہ بھی موجود ہے۔

دوسری منزل پر مہمانوں کی آمد و رفت کے لیے جگہ رکھی گئی ہے جس میں سجاوٹ اور زیبائش کے لیے چاروں اطراف بڑی بڑی آئل پینٹنگز ہیں۔ یہ حسین طاہر زادے بہزاد کی مصوّری کا نمونہ ہیں جس میں‌ اس نے دراصل شاہ نامۂ فردوسی کی کہانی کو پیش کیا ہے۔

سعد آباد کی اس شاہی عمارت میں تقریبات کے وسیع ہال میں بادشاہ سرکاری اجلاس منعقد کرتے تھے اور یہیں مختلف ممالک کے سفیر محمد رضا شاہ پہلوی کو اپنی اسناد پیش کیا کرتے تھے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس شاہی محل میں طعام کے ہال میں‌ ہر وقت کے کھانے کی میزیں الگ الگ ہیں۔ انہی میزوں میں سے ایک پر شاہی خاندان ناشتہ کرتا تھا تو دوسری میز پر دوپہر کا کھانا چنا جاتا تھا اور شام کی چائے اور رات کا کھانے کے لیے ایک اور میز سجائی جاتی تھی۔

آخری ملکہ فرح دیبا کے کمرے میں موجود کم و بیش تمام اشیاء فرانس یا انگلینڈ کی ہیں جب کہ بادشاہ کے کمرے کی چھت پر سونے کی باریک تہ چڑھائی گئی ہے۔

ایران میں انقلاب کے بعد اس کمپلیکس کو عجائب گھر بنا دیا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -