یومِ دفاع، یا چھے ستمبر جب قوم اس دن کی یاد تازہ کرتی ہے، جب دشمن کی فوج نے طاقت اور عسکری برتری کے نشے میں پاکستان کو جنگ کے لیے مجبور کیا تھا۔ وطن عزیز کی سرحدوں کو پامال کرنے والے بھارت نے ستمبر 1965ء میں ہزیمت اٹھائی اور یہ دن پاکستان کی عسکری تاریخ میں ناقابلِ فراموش ثابت ہوا اور جرأت و بہادری کی مثال بن گیا۔
اس دن کی مناسبت سے ادب کی دنیا میں بھی بہت کچھ لکھا گیا اور اخبار و رسائل میں پامردی اور قربانی کی کئی لازوال داستانیں پڑھنے کو ملیں۔ یہ ایک ایسی ہی تحریر ہے جس کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب شاہد احمد دہلوی ہیں۔ انھوں نے اس جنگ میں بھارتی جارحیت پر عوام کا غم و غصہ اور ان میں مادرِ گیتی کی خاطر کٹ مرنے کے جذبے کو بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔
نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔
لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔
ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔
ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔