شاہد احمد دہلوی کے قلم سے کتنے ہی واقعات اور تذکرے نکلے اور بطور حوالہ و یادگار آج بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی تحریریں متحدہ ہندوستان کی اُس دلّی کی یاد تازہ کرتی ہیں جو مسلم دور کی تہذیب و ثقافت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ دلّی کے شاہد صاحب بٹوارے کے بعد وہاں گئے تو اسے بہت مختلف پایا۔ مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر دوستیاں اور میل جول ہونے لگا تھا۔ روشن خیال اور بلند فکر لوگ دلّی سے چلے گئے تھے یا پھر تنگ دل اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہندوؤں کے ڈر سے خاموش تھے اور ایک مشترکہ کلچر کو تباہ و برباد ہوتا دیکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
شاہد احمد دہلوی کو اردو کا صاحب طرز ادیب، مترجم اور ماہرِ موسیقی کہا جاتا ہے جن کی یہ تحریر موجودہ دور کے بھارت کی عکاسی کرتی ہے جو آج اپنی سیکولر شناخت کھو چکا ہے اور مودی کی پھیلائی ہوئی نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ وہاں بالخصوص مسلمانوں کو ریاستی سرپرستی میں اپنی املاک اور عبادت گاہوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے اور جھوٹے الزامات کے بعد یا مکان اور مسجد وغیرہ کو غیر قانونی تعمیر کہہ کر مسمار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بے دخلی کا ایک عمل ہے۔ شاہد احمد دہلوی بتاتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد بھی کراچی میں ہندوؤں کی جائیداد، ان کا مال و دولت محفوظ رہا بلکہ مسلمان ان کی جائیدادوں پر قبضہ نہیں کرسکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
"ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ ’چرخے والان‘ کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ ’پہاڑ گنج‘ اور ’سبزی منڈی‘ میں سب مسجدیں آباد ہیں۔ ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے… چھوڑیں تو جائیں کہاں…؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر ’کسٹوڈین‘ کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر ’شرنارتھیوں‘ کو آباد کر دیا کہ ’کسٹوڈین‘ کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔ دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو ’شرنارتھیوں‘ کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھر رہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔ نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود ’کسٹوڈین‘ کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔”
"اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔ کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر ’شرنارتھی‘ بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دو گے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔“
(تصنیف ’دلّی کی بپتا‘ سے ماخوذ)