تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

دلّی جو ’ڈائن ماں‘ بن گئی!

”دلّی کا دلّی والوں سے جدا ہونا گوشت سے ناخن کا جدا ہونا ہے، مہینوں اس جدائی کے صدمے سے طبیعت نڈھال رہی۔

کتنی پیاری ہوگئی دلّی اس فراق کے بعد…! دلّی کے ایک ایک ذرّے کی یاد ستارہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں تو اُڑ کر دلّی پہنچیں۔ لیکن ساری راہیں مسدود تھیں اور جو دلّی ہم چھوڑ کر آئے تھے، وہ اس درجے وحشت ناک تھی کہ اس کے تصوّر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود ایک دل فریب کشش تھی کہ خوف و ہراس کو محو کیے دیتی تھی، جیسے کسی ماں نے اپنے بچے کو مارا ہو اور بچّہ سہم کر دور ہوگیا ہو، لیکن تسکین کے لیے ماں ہی کی مامتا بھری آغوش میں دبک جانا چاہتا ہو اور دلّی جو اب ہمارے لیے ایک ’ڈائن ماں‘ بن گئی تھی وہ ’ڈائن‘ ہوتے ہوئے بھی ہماری ماں تو بہرحال تھی ہی۔

اس کی خونی کچلیاں اب دکھائی نہ دیتی تھیں، لبوں پر سے خون کا لاکھا صاف ہو چکا تھا۔ مامتا کے مارے دلّی والے برباد ہو کر بھی ماں کی گود میں جانا چاہتے تھے۔ ڈائن کی گود میں، ماں کی گود میں…

میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائی دلّی ہی میں تھے، ان کے خط آنے لگے تھے کہ اب امن ہو گیا ہے اور فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں کے بندھنوں سے مجبور تھا۔ دلّی جانے کا جب بھی ارادہ کیا، انھوں نے ملتوی کرا دیا کہ ابھی اور ٹھیرو۔ اس عرصے میں میرے ایک قریبی عزیز اور ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست دو مرتبہ دلّی جاکر اپنے بہت کچھ معاملات طے کر آئے تھے۔ یہ صاحب بہت پکّے مسلمان تھے۔ حج کر آئے تھے، دو انگشت داڑھی بھی رکھتے تھے۔ ان سے بار بار کہا کہ یہ موقع ایسا نہیں ہے آپ دلّی میں رہیں اور صورت شکل اور لباس سے یہ بھی ظاہر ہو کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ کوئی بری گھڑی نہ لائے، احتیاط کرنا تو ہر انسان کا فرض ہے، مگر وہ توکّل کے بندے تھے۔ انھوں نے اپنی وضع قطع نہیں بدلی۔ داڑھی اور جناح کیپ پہنے رہے اور کئی کئی دن دلّی میں رہ کر لاہور واپس آئے۔ آخری بار محرم کے شروع میں دلّی گئے۔

میرے بڑے بھائی ان دنوں اپنی کوٹھی، موٹر اور بندوقیں بچانے دلّی گئے ہوئے تھے۔ یہ صاحب انھیں کہیں چلتے پھرتے مل گئے۔ عشرہ کا دن تھا اور یہ صاحب روزے سے تھے۔ بھائی نے مذاقاً کہا ”میاں سلطان اس جھالر کو اب تو اتار دو۔“ مگر وہ ہنس کر بولے ”مرنا ہے تو بغیر اس کے بھی کوئی مار دے گا۔“ تیسرے پہر صدر بازار میں بم پھٹا۔ مسلمانوں کی باقی ماندہ دکانیں ٹوٹی گئیں اور ستّر، اسی آدمیوں کے چُھرا گھونپا گیا۔

تین دن بعد معلوم ہوا کہ سلطان اشرف کا منشی اسپتال میں پڑا ہوا ہے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے پولیس میں اطلاع دی ہے کہ قطب روڈ پر سلطان اشرف اپنے دفتر میں مارے گئے۔ ان کی لاش وہیں کمرے میں پڑی ہے۔ ان کی بہن اور قریبی عزیز ’چوڑی والاں‘ میں رہتے تھے انھیں اطلاع کرا دو۔ جب گھر میں یہ منحوس خبر پہنچی ہے، تو صف ماتم بچھ گئی۔ بڑی بہن پچھاڑیں کھا رہی تھی اور بوڑھی ماں پاگلوں کی طرح ایک ایک کی شکل دیکھ رہی تھی۔ اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور گویائی کے ساتھ ادراک بھی سَلَب ہوگیا تھا۔ منشی کا بیان ہے کہ جب بم پھٹا اور ہنگامہ ہوا تو سلطان اشرف نے جلدی جلدی اپنا دفتر بند کیا اور زینے سے اتر کر بازار میں آنا چاہتے تھے کہ چند مسلح غنڈوں نے انھیں دیکھ لیا اور ”یہ رہا مسلمان“ کہہ کر ان کی طرف جھپٹے۔

سلطان اور منشی الٹے پیروں زینے پر چڑھنے لگے۔ قاتلوں نے ان کا پیچھا کیا، نہتے آدمی بھلا تلوار اور برچھوں کا کیا مقابلہ کرتے۔ منشی تو گھبرا کر برآمدے میں سے بازار میں کود پڑا اور پھر اسے خبر نہیں کہ کیا ہوا۔ تین دن بعد پولیس کا آدمی اطلاع دے گیا کہ سلطان اشرف کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے۔ اگر لاش لینا چاہتے ہو تو باؤلی سے لے آؤ۔

رشتے کے دو بھائیوں نے ہمت کر کے سبزی منڈی کا رخ کیا اور گویا جان سے بیزار ہو کر مردہ گھر پہنچے۔ وہاں کچھ سکھ دکھائی دیے۔ ہمّت کر کے ان سے لاش کے بارے میں دریافت کیا۔ سکھوں نے پوچھا ”وہ تمھارا کون تھا؟“ انھوں نے بتایا ”بھائی۔“ سکھوں نے کہا ”لاش اندر ہو گی، جا کر اندر پہچان لو۔“ یہ تو بے تاب تھے ہی ان کے اشاروں کنایوں کی پروا کیے بغیر اندر گھس گئے، سلطان کی لاش میز پر کٹی پھٹی پڑی تھی۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں زخم نہ ہو، ہاتھوں سے معلوم ہوتا تھا جب تک دم رہا قاتلوں کے وار روکتا رہا اور جتنے زخم تھے، سب آگے کے رخ تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ سلطان مرتے مرگیا، مگر اس نے اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔

بھائیوں نے جو یہ منظر دیکھا، تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ باہر سے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی۔ جب رو دھو کر دل کا غبار نکل گیا، تو انھیں فکر ہوئی کہ لاش کو گھر کیسے لے کر جائیں؟ باہر جھانکا تو تیور بگڑے ہوئے دکھائی دیے۔ حیران پریشان کھڑے ہوئے تھے کہ ایک انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے ان سے پوچھا ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ انھوں نے مختصراً ساری کیفیت سنائی۔ اس بھلے آدمی نے انھیں تسلّی، دلاسا دیا اور بولا ”میں ادھر سے گزر رہا تھا، تمھاری چیخیں سن کر چلا آیا۔ گھبراؤ مت سب انتظام ہو جائے گا۔“ اور واقعی سب انتظام ہوگیا کہ ایمبولنس آگئی اور وہ انگریز انھیں اور لاش کو گھر تک پہنچا گیا۔

سلطان اشرف کی ناگہانی موت نے لاہور میں ان کے بیوی بچّوں کو زندہ درگور کر دیا۔ مرحوم کے دم سے بارہ، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمدنی تھی، وہ یک لخت بند ہوگئی اور پس ماندگان پردیس میں بالکل بے آسرا رہ گئے۔ عزیز انہیں دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ یہ بے چارے بھی بالآخر مرحوم کا چہلم کر کے دلّی چلے گئے۔

(’دلّی کی بپتا‘ از شاہد احمد دہلوی سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -