منٹوؔ کو شراب پینے کی لت خدا جانے کب سے تھی۔ جب تک وہ دلّی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی۔ بمبئی جانے کے بعد انھوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی۔
جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا۔ اس لیے انھیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادب جیسی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو ؔ ہی کا کام تھا۔ صحت پہلے کون سی اچھی تھی۔ رہی سہی شراب نے غارت کر دی۔ کئی دفعہ مرتے مرتے بچے۔ روٹی ملے یا نہ ملے بیس روپے روز شراب کے لیے ملنے چاہیے۔ اس کے لیے اچھا بُرا کچھ روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا۔ انھیں لے کر وہ کسی ناشر کے پاس پہونچ جاتے۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انھیں خریدا۔ پھر بے ضرورت پھر اُپرانے اور منہ چھپانے لگے۔ دور سے دیکھتے کہ منٹو آ رہا ہے تو دکان سے ٹل جاتے۔ منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہو گئی تھی جو آخر میں اختر شیرانی اور میرا جی کی۔ بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔
اگست 1954 میں کئی سال بعد لاہور گیا تھا۔ لاہور کے ادیب، شاعر، ایڈیٹر اور پبلشر ایک بڑی پارٹی میں جمع تھے کہ غیر متوقع طور پر منٹو بھی وہاں آگئے۔ اور سیدھے میرے پاس چلے آئے۔ ان کی حالت غیر تھی۔ میں نے کہا آپ تو بہت بیمار ہیں۔ آپ کیوں آئے؟ میں سے اٹھ کر خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔ بولے ہاں بیمار تو ہوں مگر جب یہ سنا کہ آپ یہاں آ رہے ہیں تو جی نہ مانا۔
اتنے میں ایک شامت کا مارا پبلشر ادھر آ نکلا۔ منٹو نے آواز دی، "اوئے ادھر آ۔” وہ رکتا جھجکتا آگیا۔
"کیا ہے تیری جیب میں نکال۔” اس نے جیب میں سے پانچ روپے نکال کر پیش کیے مگر منٹو پانچ روپے کب قبول کرنے والے تھے۔ "حرام زادے دس روپے تو دے۔” یہ کہہ کر اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور دس روپے کا نوٹ نکال کر پھر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ پبلشر نے بھی سوچا کہ چلو سستے چھوٹے۔ وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ منٹو پندرہ بیس منٹ تک بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر ان کی بے چینی بڑھ گئی اور عذر کر کے رخصت ہوگئے۔ مجھ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
پانچ مہینے بعد اخبارات سے معلوم ہوا کہ منٹو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے پھر چپکے سے شراب پی لی تھی۔ خون ڈالتے ڈالتے مر گئے۔
(گنجینۂ گوہر از قلم شاہد احمد دہلوی سے اقتباس)