کراچی: شہر قائد میں شارع فیصل پر گاڑیوں سے ایک دوسرے پر فائرنگ اور سیکیورٹی گارڈ کے زخمی ہونے کے واقعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ واقعہ لڑکی کے تنازع پر پیش آیا، جب کہ پولیس بااثر افراد کے خلاف قانونی کارروائی سے گریز کر رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شارع فیصل پر گرل فرینڈ کے تنازعہ پر بااثر افراد میں مسلح تصادم کا واقعہ پیش آیا ہے، تاہم ایئرپورٹ پولیس بااثر افراد کے خلاف قانونی کارروائی سے گریز کر رہی ہے، اور واقعے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں معمولی دفعات کے تحت سیکیورٹی گارڈز کے خلاف درج کر دیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق مقدمے میں بااثر درین خان، محمد حسن اور مصطفیٰ بادانی کو نامزد نہیں کیا گیا، جب کہ حوالگی رپورٹ میں محمد درین خان، محمد حسن اور مصطفیٰ کے نام درج ہیں، ایئرپورٹ پولیس نے صرف 3 سیکیورٹی گارڈز کو باضابطہ گرفتار کیا ہے، جن کے نام محمد علی، علی جان اور محمد نواز ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے تینوں بااثر افراد اور ان کے تین سیکیورٹی گارڈز کو حراست میں لے کر پولیس کے حوالے کیا تھا، حوالگی رپورٹ میں بااثر افراد کے نام درج ہیں، حوالگی رپورٹ میں درین خان نے بیان دیا کہ شارع فیصل پر آ رہے تھے کہ ہماری گاڑی پر فائرنگ کی گئی، جواب میں میں نے بھی فائرنگ کر دی۔
ایئرپورٹ پولیس مسلسل معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ اس واقعے پر پولیس کے اعلیٰ افسران نے بھی چپ سادھ لی ہے۔
واقعہ کیوں پیش آیا؟
کراچی ایئرپورٹ کے قریب فائرنگ کے اس واقعے میں 2 سیکیورٹی گارڈز زخمی ہوئے، پولیس ذرائع کے مطابق فائرنگ کا یہ واقعہ لڑکی کی جانب سے نیا بوائے فرینڈ بنانے پر پیش آیا، پرانا دوست نئے دوست کے ساتھ لڑکی کو جاتے ہوئے دیکھ کر طیش میں آ گیا، اور لڑکی جس گاڑی میں نئے دوست کے ساتھ سوار تھی اس کا کراچی کلب سے پیچھا کیا گیا۔
شارع فیصل پہنچنے پر پرانے دوست نے سیکیورٹی گارڈ سے گاڑی پر فائرنگ کروا دی، فریقین فائرنگ کرتے ہوئے ایئرپورٹ کے اندر داخل ہو گئے، پولیس نے دعویٰ کیا کہ فائرنگ کی وجہ بننے والی لڑکی، دو سیکیورٹی گارڈز اور 3 دیگر افراد کو حراست میں لیا گیا، جب کہ ملزمان کے زیر استعمال لگژری گاڑیاں، گارڈز کا اسلحہ اور مسروقہ سامان بھی ضبط کیا گیا، ضبط کی گئی دونوں گاڑیوں پر نمبر پلیٹ بھی نہیں لگی ہوئی تھی۔
تحقیقاتی ذرائع نے یہ انکشاف کیا کہ واقعے میں ملوث سیکیورٹی گارڈ علی جان کا نجی سیکیورٹی کمپنی سے منسلک ہونا بھی مشکوک ہو گیا ہے، علی جان کو مبینہ طور پر ایک نجی سیکیورٹی کمپنی کا جعلی کارڈ دیا گیا تھا، سیکیورٹی گارڈ کے پاس سے ایس ایم جی رائفل ملی جب کہ اس کی کمپنی ایس ایم جی رائفل فراہم کرنے کی مجاز نہیں، اس سلسلے میں ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی اور ڈی آئی جی ایسٹ اظفر مہیسر نے جواب دینے سے گریز کیا۔
پولیس تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ فائرنگ کے واقعے میں سندھ کے بااثر سیاسی و قبائلی خاندان کا فرد ملوث تھا، جس پر پولیس کی نیندیں اڑ گئیں، فائرنگ میں ملوث بغیر نمبر پلیٹ کی لگژری گاڑی میں با اثر خاندان کا درین خان سوار تھا، درین خان اور محمد حسن نامی افراد کے درمیان لڑکی سے دوستی پر جھگڑا ہوا تھا۔