اسلام آباد: سابق وزیر اعظم عمران خان کے اُس وقت کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے نوٹس کا جواب جمع کروا دیا۔
نیب 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کی تحقیقات کر رہا ہے۔ 22 مئی کو نیب نے شہزاد اکبر کو اس سلسلے میں طلب کیا تھا لیکن وہ پیش نہ ہوئے۔
شہزاد اکبر نے نیب نوٹس کے پیرا وائز سوالات کے جوابات بھیجے ہیں جس میں انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی پیشکش کی۔
جواب میں انہوں نے لکھا کہ طلبی کا مقصد کچھ اور نہیں تو ویڈیو پر دستیاب ہوں، لندن سے آنے والی رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی، ایسٹ ریکوری کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ بھیجی گئی رقم بھی این سی اے اکاؤنٹ سے منتقل نہیں ہوئی تھی، نیب بینک دستاویزات کا جائزہ لے سکتا ہے، رہائش بھی برطانیہ میں ہے اور کام بھی یہیں کرتا ہوں۔
16 مئی کو نیب نے شہزاد اکبر کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا جس میں اسکینڈل سے متعلقہ دستاویزات بھی ساتھ لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ انکوائری میں بھی طلبی کا نوٹس بجھوایا گیا لیکن آپ جان بوجھ کر پیش نہیں ہوئے، عدم پیشی پر آپ کو نیب آرڈیننس کے تحت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
شہزاد اکبر کو نیب طلبی کے سمن میں کیس کی مکمل تفصیلات بھی بتائی گئی تھیں۔ ان کو نیب کی جانب سے 13 سوالات پر مبنی سوالنامہ بھی بجھوایا گیا تھا۔
القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا؟
نیب کے مطابق یہ مقدمہ القادر یونیورسٹی کیلیے زمین کے غیر قانونی حصول کا ہے، نیشنل کرائم ایجنسی یو کے کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کی غیر قانونی وصولی سے فائدہ اٹھایا گیا، تفتیشی عمل کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ کو کال اپ نوٹس جاری کیے گئے، یہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہیں۔
نیب کے مطابق سابق معاون خصوصی شہزاد اکبر کیس میں ملوث اور کلیدی کردار رہے، شہزاد اکبر اور عمران خان نے خفیہ معاہدے کی دستاویز چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، 190 ملین پاؤنڈ کی رقم قومی خزانے میں جمع ہونا تھی، 190 ملین پاؤنڈ کو نجی سوسائٹی کے کیس میں ایڈجسٹ کیا گیا جسے سپریم کورٹ نے نمٹایا۔