تازہ ترین

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

چھوٹی آخر کھوٹی کیوں ہے؟

برتن گرنے کے شور کے ساتھ ہی بیگم شاہنواز کی پاٹ دار آواز گونجی ”ہائے آج پھر نقصان کر ڈالا بد بخت نے، بھیا خاص میرے لیے لائے تھے جاپان سے، کتنا نازک اور نفیس سیٹ تھا۔ مسز امیر علی تو اسے دیکھ کر انگاروں پر لوٹتی تھیں۔ دیکھوں تو جا کر کیا ٹوٹا اور کیا بچا؟“

بیگم شاہنواز نے چھوٹی کے بال نوچے تو وہ تڑپ اٹھی۔ ”میم صاحب! قسم سے میں نے جان کر نہیں توڑے، میرے ہاتھوں سے گر گئے۔

”واہ واہ ہماری چھوٹی مہارانی پر تو کپکپی چڑھ گئی، اری منحوس ابھی تو میں نے کچھ کہا بھی نہیں۔ چھید ہیں ہاتھوں میں، جو چیز پکڑتی ہے اِن سوراخوں سے چھن کر نکل جاتی ہے اور میری شکل کیا تک رہی ہے؟ منحوس لا کر دے مجھے اپنی تواضع کا سامان۔ ”نہیں نہیں میم صاحب، رحم کریں میں کان پکڑتی ہوں، اٹھک بیٹھک کر لوں گی۔ مجھے نہ ماریں۔ چھوٹی سسک اُٹھی۔“

بیگم شاہنواز نے چھوٹی کو ڈنڈے سے پیٹنا شروع کر دیا۔ ”میم صاحب بس کریں، ہاتھ ٹوٹ جائے گا میرا۔“

شانزے! ممی ممی! آپ یہاں ہیں؟

ارے ارے ڈارلنگ کیا کر رہی ہو باہر جاؤ کانچ چبھ جائے گا جان۔ بیگم شاہنواز نے لاڈ سے بیٹی کو کہا اور چھوٹی سے مخاطب ہوئیں ”ہاں ہاں کر دیا بس۔ اب کانچ کے ٹکڑے سمیٹ اور چائے بنا کر لا میرے لیے۔ صرف دس منٹ میں، میرا سر بُری طرح دکھ رہا ہے۔“

چھوٹی بلک رہی تھی ”ہائے اماں! کانچ چبھ گیا۔ خون بہہ رہا ہے۔“ بیگم شاہنواز سفاکی سے چلائیں ”زیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا قیامت آگئی؟ ”میم صاحب! میرے ہاتھ سے کانچ نکال دیجیے، ہائے، ہائے۔“ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ بیگم شاہنواز نے تلملاتے ہوئے چھوٹی پر ڈنڈوں کی برسات کر دی، ”بدبخت، چڑیل، اپنا کیا خود بھگت نامراد!

”چھوٹی! میرے شوز پالش کر دے۔“ شاہنواز مرزا نے حکم صادر فرمایا۔ ”جی سر جی! کہتے ہوئے چھوٹی آواز کی سمت لپکی اتنی دیر میں شانزے نے اپنے کپڑے چھوٹی کو تھماتے ہوئے کہا جلدی سے میرا ڈریس پریس کر دے، پنکی کے برتھ ڈے فنکشن میں جانا ہے۔ ” ابھی کرتی ہوں چھوٹی میم صاحب“ شانزے نے عاجزی سے کہا، اُدھر شاہنواز مرزا چلے آئے، ”ابھی تک شوز پالش نہیں کیے تو نے چھوٹی؟ بہت نافرمان ہو گئی ہے۔ ادھر آ، اپنی خوراک تو کھالے بہت دنوں سے نہیں کھائی۔“ چھوٹی نے خوفزدہ ہوتے ہوئے کہا، ”معاف کر دیجیے صاحب، چھوٹی میم کے کپڑے پریس کر رہی تھی، آئندہ پہلے آپ کا کام کروں گی۔“

”بہت کام چور ہو گئی ہے یہ چھوٹی! ذرا سی چائے نہیں بن سکی اس سے۔ جتنا چاہو نقصان کروا لو منحوس، چھوٹی ہی نہیں کھوٹی اور کھوتی بھی ہے۔ چائے کہا تھا تجھ سے کیا پائے پکا رہی ہے؟ آئی میم صاحب چھوٹی نے شاہنواز مرزا کے سامنے شوز پالش کر کے رکھتے ہوئے کہا۔ یہ لیجیے سر جی! آپ کے شوز“
یہ کیسی پالش کی ہے؟ کہا تھا نا ایسی پالش کرنا کہ تجھے اپنی شکل صاف نظرآئے شاہنواز مرزا نے غراتے ہوئے گھونسوں سے چھوٹی کی تواضع کر دی۔
چھوٹی! بری طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی ”سر جی! معاف کر دو۔ ابھی چمکا دیتی ہوں آپ کے شوز۔ بیگم شاہنواز کی چنگارتی آواز آئی ”چھوٹی چائے“
”ابھی سر جی کے شوز چمکا دوں پھر لاتی ہوں آپ کی چائے بھی۔“ چھوٹی نے سہمے ہوئے کہا تو بیگم شاہنواز چلائیں ”سنا نہیں تُو نے؟ چھوٹی میم صاحب نے کیا کہا ہے۔ پہلے میری پرنسز کے کپڑے صحیح سے پریس کر“ یہ لیجیے میم صاحب! گرم گرم چائے۔“ پانچ منٹ بعد ہی وہ بیگم شاہنواز کو چائے تھما رہی تھی۔

یہ گرم چائے ہے یا گرم پانی؟ پھوہڑ کہیں کی، میں تو نہیں پی سکتی یہ۔ تجھ ہی پر اُنڈیل دیتی ہوں۔ بیگم شاہنواز نے چائے چھوٹی کے ہاتھ پر گرا دی۔ ہائے میم صاحب میرا ہاتھ جل گیا چھوٹی بلک بلک کر رو رہی تھی اور بیگم شاہنواز طیش کے عالم میں یہ کہتے ہوئے اس کی جانب بڑھیں کہ ”اری تُو ایک ذرا سا ہاتھ جلا تو شور کیوں مچا رہی ہے؟ لاتوں کی بھوت باتوں سے کہاں مانے گی؟ تُو نے تو میرا درد اور بڑھا دیا۔ آ کھا لے اس جرم میں میری لاتیں۔“ بیگم شاہنواز بے دردی سے لاتیں مار رہی تھیں اور چھوٹی کہہ رہی تھی معافی میم صاحب! آئندہ بہت اچھی چائے بناؤں گی۔

چھوٹی کا بدن بُری طرح دکھ رہا تھا۔ کل کی مار سے وہ بے حال تھی۔ رات بھر بخار میں مبتلا رہی پھر بھی کام کرنے آگئی تھی۔ ذرا دیر کو تھک ہار کر بیٹھی کہ شانزے نے صدا لگائی۔ ”میری انگلش کی بک نظر نہیں آرہی۔ میں نے ٹیبل پر رکھی تھی۔ اوہو بھئی مزے آرہے ہیں۔ ممی جلدی آؤ دیکھو۔ ایجوکیشنسٹ کے پاس ہے میری بک، اسٹڈی ہو رہی ہے۔“ چھوٹی کے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھتے ہوئے شانزے نے قہقہے لگائے تو بیگم شاہنواز نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے کہا ”!اوہو، اللہ کی شان تو دیکھو، چیونٹی کے بھی پر نکل آئے۔ کیوں ری چھوٹی موٹی۔ کیا پڑھ ڈالا تُو نے؟“

”معاف کر دو۔ میں تو تصویریں دیکھ رہی تھی شانزے کی کتاب میں سے۔“ چھوٹی کے ہاتھ سے کتاب گر گئی لیکن شانزے کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔

”شانزے! What شانزے؟ کہا تھا نا تم سے ہمیں چھوٹی میم صاحب کہا کرو۔ ابھی کھینچتی ہوں چوٹی۔ ٹھیک ہو جائے گا تمہارا دماغ۔“

نہیں نہیں چھوٹی میم صاحب۔ بس کریں بہت تکلیف ہو رہی ہے، چھوڑ دیں میرے بال، ماں قسم ہمیشہ آپ کو چھوٹی میم صاحب کہوں گی۔ کان پکڑ کر توبہ کرتی ہوں۔ چھوٹی تکلیف سے تڑپ ہی تو اُٹھی مگر اس کی تکلیف کی پروا ہی کس کو تھی۔ اب باری بیگم شاہنواز کی تھی جو تفریح لینے والے انداز سے پوچھ رہی تھیں
”یہ تو بتا تُو نے کتاب اُٹھائی کیوں تھی چھوٹی؟ ”میرا پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔مجھے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے، ماں کہتی ہے اس کے لیے بہت سارے پیسے چاہئیں۔ کام پر جا، پیسے کما، پھر اسکول میں داخلہ لے لے اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جا۔ مجھے ڈاکٹر بہت اچھے لگتے ہیں۔“

”بڑا اچھا جوک ہے یہ تو۔ کیوں ممی؟ شانزے نے چھوٹی کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے کہا تو بیگم شاہنواز نے مزے لیتے ہوئے کہا ”اچھا… واقعی مزے کا ہے آؤ مل کر ہنستے ہیں۔ ہاں تو چھوٹی تُو کہاں داخلہ لے گی؟ چھوٹی بھلا اتنی سمجھدار کہاں تھی جو اُن کے مذاق کو سمجھ سکتی۔ خوشامدی لہجے میں بولی ”میم صاحب! آپ مجھے چھوٹی میم صاحب کے اسکول میں داخل کروا دیں۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ ڈاکٹر بن جائیں گی۔“ آئیڈیا تو بہت زبردست ہے چھوٹی لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا

پیر میں رہنے والی جوتی دیکھ نہ اونچے خواب
ایک ہی شے پہ حق ہے تیرا وہ ہے صرف عذاب
(عنبرؔ)

میری بیٹی کی برابری کرے گی۔ ادھر آ ابھی جلاتی ہوں تیری گستاخ زبان۔“
چھوٹی متوقع تکلیف کے خیال سے ہی بُری طرح خوفزدہ ہو گئی، نہیں نہیں میم صاحب! ابھی تو کل کی مار کا درد نہیں گیا۔ اماں نے مالش بھی کی تھی پھر بھی نہیں گیا“

”تو میں کیا کروں، بہت اونچے خواب دیکھتی ہے۔ چھوٹی کی پرواز تو کوئی دیکھے۔ میں تجھے ناکوں چنے نہ چبوا دوں۔ شانزے ڈارلنگ کچن سے ماچس تو لانا، ابھی زبان جلاتی ہوں چھوٹی کی، بیگم شاہنواز نے قہر برساتی نظروں سے چھوٹی کو دیکھا تو وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ ”میم صاحب میری زبان نہ جلاؤ۔کل آپ نے ہاتھ جلایا تھا، اب تک دکھ رہا ہے۔ میری زبان نہ جلاؤ میں کیسے بولوں گی؟“

بیگم شاہنواز نے تلملاتے ہوئے کہا، ”فٹے منہ کون سا اچھا بولتی ہے جو یوں بولنے کو تڑپ رہی ہے زبان دراز۔“ یہ لیجیے ممی! جلائیے اس کی زبان۔ بہت شوق ہے اسے میرے اسکول جانے کا۔ کل اسکول لے کر جاؤں گی چھوٹی کھوٹی کو اس کی جلی ہوئی زبان سب کو دکھاؤں گی۔ شانزے نے ماچس ماں کو دیتے ہوئے کہا۔ منہ کھول اپنا۔“

”نہیں نہیں میم صاحب! میں کبھی چھوٹی میم صاحب کے اسکول کا نام نہیں لوں گی۔ لیکن بیگم شاہنواز پر تو وحشت سوار تھی، جنونی لہجے میں کہ رہی تھیں ”اے چھوٹی! خود ہی منہ کھول۔ ورنہ زبان کیا تجھے پوری کی پوری چولھے میں جھونک دوں گی۔“

چھوٹی تڑپ رہی تھی ”ہائے جلا دی میری زبان۔ اماں اماں۔ ہائے میری زبان۔“

بیگم شاہنواز بھی ایک ماں تھیں لیکن اپنی امارت کے زعم میں وہ انسانیت کا ہر درس بھلا بیٹھی تھیں۔ تنتناتے ہوئے اس کے بال بے دردی سے کھینچے، ”اری چپ کر۔ ابھی آنے والی ہے تیری ماں۔ بتاتی ہوں اُسے تیرے ارمان اور گز بھر کی زبان۔؟ یہ سارا تماشہ دلچسپی سے دیکھتی ہوئی شانزے چہکی ”ممی! دیکھو چھوٹی کی اماں بھی آگئی۔“

آئیے آئیے مہارانی تشریف لائیے اور سُنیے اپنی رانی کی کہانی۔ یہ تو بتائیے آپ کے لیے صوفہ پیش کروں یا تخت شاہی؟ قابل تو تم تختے کے ہو۔ بیگم شاہنواز نے حقارت بھری نظر چھوٹی کی ماں پر ڈالتے ہوئے کہا۔” ماں کو دیکھ کر چھوٹی چلائی ہائے اماں بچا لو مجھے اور پل کی پل میں چھوٹی بے ہوش ہو گئی۔“

ہائے میری شمشیرن، ماں صدقے، کیا ہو گیا تجھ کو۔ ارے یہ تو بے ہوش ہو گئی۔ کل سے بخار میں تپ رہی تھی آپ کا حکم تھا اس لیے چُھٹی نہیں کروائی۔“

”سن لیا تمہارا شمشیرن نامہ اور یہ کیا سکھایا ہے تم نے چھوٹی کو۔ میری شانزے کی برابری کر رہی تھی کہ شانزے کے اسکول میں داخلہ دلوا دو۔ ڈاکٹر بنوں گی۔ ارے نام تو نے شمشیرن کیا رکھ دیا خود کو شمشیر زن سمجھنے لگی۔ جلا دی میں نے اس کی خود سر زبان۔ بہت اچھے لگتے ہیں نا اسے ڈاکٹر۔ اب ساری زندگی زبان کے علاج کے لیے ڈاکٹروں ہی کو دیکھے گی ارمان پورا ہو جائے گا۔ لے جاؤ اسے نہیں ضرورت اس کی۔“ بیگم شاہنواز نے بیہوش چھوٹی پر تھوکتے ہوئے کہا۔

”میم صاحب جی معاف کر دیجیے۔ باپ تو اس کا چرسی ہے، میں ہمیشہ کی بیمار، اسی کی تنخواہ سے ہمارا گھر چلتا ہے۔ آپ بے شک چھوٹی کو ماریں مگر مجھے تو ہر مہینے تنخواہ اور روز کا کھانا دو گی نا؟ نصیبن نے بے حسی اور سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔ جانے اس کی ممتا کہاں جا سوئی تھی۔“

بیگم شاہنواز کو اپنا آرام خطرے میں نظر آیا جو چھوٹی کی بدولت سارا دن اُنہیں میسر تھا۔ اکڑ کر بولیں ”بہت نقصان کیا ہے میرا، اس مہینے کی تنخواہ نہیں ملے گی، اس شرط پر رکھوں گی کہ آئندہ میری شانزے کی برابری نہیں کرے گی۔“

”جیتی رہو میم صاحب جی! بڑی رحم دل ہوآپ۔ کل صبح ہی آجائے گی کام پر۔ نصیبن نے بیگم شاہنواز کے پیر چھوتے ہوئے کہا۔

قارئین! آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ”چھوٹی“ شمشیرن ہے یا بیگم شاہنواز کی گھٹیا سوچ یا پھر اس کی ماں جو اپنی ہی کمسن بیٹی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتے دیکھ کر بھی اپنے مفاد کے لیے بیٹی کو استعمال کر رہی ہے؟ اسی رویے نے چھوٹی کو جیتے جی مار دیا، کیا ہمارے معاشرے کی ہر چھوٹی کا یہی انجام ہوگا؟کیا کبھی چھوٹی کے ساتھ ساتھ بڑوں کی سوچ بھی بڑی ہوکر ہمارے سماج کی چھوٹیوں کو بھی انسان سمجھے گی یا اُن کی چھوٹی سوچ کے نتیجے میں چھوٹی کھوٹی ہی رہے گی؟

(تحریر شائستہ زریں ؔ)

Comments

- Advertisement -