تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

کتاب کی تقریبِ رونمائی کی خبر پڑھتے اور سنتے ہی جانے کیوں یہ مصرع یاد آجاتا ہے

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

اور ساتھ ہی غالب ؔ کے دشمنوں کا خیال بھی آتا ہے کہ پرزے تو غیر ہی اُڑاتے ہیں اپنے تو پردہ رکھ لیتے ہیں اور سچ پوچھیے تو آئے دن اخبارات میں کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا احوال پڑھ کر یقین سا آنے لگتا ہے کہ اس شعر کی تخلیق کے وقت غالبؔ کے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں ”دیوانِ غالبؔ“ کی تقریبِ رونمائی کا خدشہ سر اُٹھا رہا تھا کہ اُن کے دوست احباب قرضِ دوستاں چکانے کے لیے ایسی کسی تقریب کا اہتمام نہ کر ڈالیں اور چونکہ غالبؔ کی نظر بہت دور تک دیکھنے کی عادی تھی اس لیے غالب نے بھی بہت پہلے یہ نکتہ پا لیا تھا کہ تقریب میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے پرزے ضرور اڑیں گے۔

غالب پر تو اللہ نے بڑ ا کرم کیا ان کے نصیب میں وہ تماشہ لکھا ہی نہیں تھا جو اُن کے بعد آنے والوں کو بے طلب دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ بھلا ہو اس ادبی فیشن کا جو روز بہ روز زور پکڑتا جا رہا ہے، کبھی صاحبِ کتاب خود اور کبھی کوئی اور اس کی محبت اور عقیدت سے سرشار صاحبِ کتاب کے دوستوں اور قارئین کا مجمع لگا کر صاحبِ کتاب کی بے محابہ توصیف اور کتاب پر ایسی رائے دینے پر مجبور کردیتا ہے کہ بیک وقت مصنّف کا حوصلہ اور کتاب کی ترسیل کا اہتمام ہو جائے۔ اس اجتماعی رائے زنی کا اثر کبھی کبھی مضحکہ خیز المیے کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پرزے اُڑانے والے صاحبِ کتاب کے رفیق بھی ہوتے ہیں جو حقِ رفاقت نباہتے ہوئے اس قدر نڈھال ہو جاتے ہیں کہ حاضرینِ محفل سوچتے ہیں کیا واقعی صاحبِ کتاب اتنا صاحبِ اعزاز ہے جتنا کہ اسے سراہا جا رہا ہے اور کیا مقالہ نگار اتنا صائب الرّ ائے ہے جتنا نظر آرہا ہے؟

یہ تو خیر دوستوں کا احوال تھا مگر بعض انجانے بھی ایسے صاحب کمال اور صاحب کشف و کرامات ہوتے ہیں کہ کتاب اور صاحبِ کتاب کے مطالعے کے بغیر ہی محض ذاتی مفاد کی خاطر سنی سنائی پر اعتبار کر کے کتاب اور صاحبِ کتاب کا اعتبار قائم کرنے کی دھن میں اپنا اعتبار بھی کھو دیتے ہیں مگر وہ سب ضرور پا لیتے ہیں جس کے وہ آرزو مند ہو تے ہیں۔

اس امر سے تو سب ہی واقف ہیں کہ معاشی اعتبار سے ادب کی منڈی میں کسی مصنّف کی قدر شناسی کا کس قدر کال ہے۔ کچھ تو فطرتاً ایسے بے نیاز ہوتے ہیں کہ صلے اور ستائش سے بے پروا ہو کر اپنا کام کیے جاتے ہیں لیکن حلقۂ ادب میں ایسے حضرات بھی ہیں جو خود کو منوانے کے لیے کوئی ایسا مؤثر طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی ادبی حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا جائے اور وہ تہی دست بھی نہ رہیں اور اس کے لیے وہ کتابوں کی تقریبِ رونمائی کو مفید قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اعترا ض کسی کے مفاد پر نہیں۔ معترض تو ہم اس تقریب میں پڑھے جانے والے بعض مضامین پر ہیں جن میں پڑھنے والے کی ”رضا“ سے بڑھ کر صاحبِ کتاب کی” خوشنودی“ کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس اہم تقریب میں مصنّف اور کتاب کی تشہیر کا خصوصی بلیٹن نشر کیا جاتا ہے، تب کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حاضرین مضامین پڑھنے والوں کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ

یہ ملکِ سخن کے وہ منافق ہیں جو ہر ”شام“
رکھ دیتے ہیں ایک تاج سَرِ بے ہنراں پر

کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر توصیفی کلمات ادا کیے اور تعریفی مضامین پڑھے جاتے ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کتاب کا گھونگھٹ الٹتے ہی صاحبِ کتاب سے بے بسی اور جی داری کی ملی جلی کیفیت میں سوال کیا ہو کہ

تیری نئی کتاب پر کیا تبصرہ کروں؟
مضمون منحنی سا ہے، عنواں جسیم ہے

جی ہاں؛ ایسی کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں جن کے عنوان کا خاصا رعب پڑتا ہے مگر جب ان کے مطالعے کی نوبت آتی ہے تو حیرانی و پریشانی کی یکجائی یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ جس مریض کی ”صحت“ پر شبہ ہو اس کا ”جشنِ صحت“ کیوں منایا گیا؟ لیکن تقریبِ رو نمائی میں‌ مقالات و مضامین میں تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ مقالہ نگار اخلاق اور ذاتی تعلق دونوں کو نباہنے کے ہنر اور اہمیت سے واقف ہوتے ہیں یا مروتاََ ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

محض ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کتاب کی اس معیار کی تعریف کرنا جس سے کمتر درجے کی وہ کتاب ہو، صاحبِ کتاب کے لیے ”اعزاز“ نہیں ”آزار“ ہے۔ بہت ممکن ہے کتاب کی تقریبِ رونمائی میں مدح سرائی کرنے والے خیال کرتے ہوں کہ رونمائی کے ساتھ کسی بری یا حقیر شے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کتاب پر تبصرہ بھی اعلیٰ درجے کا ہونا چاہیے۔ اندر سے خواہ کتاب کیسی ہی ہو۔ ظاہری حسن تو داد طلب ہے۔ بعض کتابوں کا سرورق متاثر نہیں کرتا مگر مطالعے سے ذوقِ کتب بینی بڑھ جاتا ہے اور ایسی بھی کتابیں ہوتی ہیں کہ سرورق پر نظر ڈالو تو ”واہ“ اور مطالعہ کرو تو ” آہ“ بھر کر رہ جاؤ گویا….

کتاب چھپ گئی چھ رنگے ٹائٹل کے ساتھ
کتابت اور طباعت کا بھی جواب نہیں
مگر کتاب کی تقریبِ رونمائی میں
کتاب چیخ رہی ہے کہ میں کتاب نہیں

دلہن اچھی ہو یا بُری رونمائی کا حق تو دونوں کو حاصل ہے، یہی بات کتاب کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ موضوع، اسلوب اور مواد خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو کتاب کی رونمائی کے آرزو مند ہر صاحبِ کتاب کے ارمان تقریبِ رونمائی کے ضمن میں کم و بیش یکساں ہوتے ہیں۔

کتابوں کی رونمائی کی تقریبات شہر میں لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں ہوتی ہیں جتنی کہ شادی کی تقریبات۔ کیونکہ شادی ہال کی طرح اس تقریبِ سعید میں تواضع کے لیے کبھی کبھار کھانے کو بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

بعض اوقات تقریبِ رونمائی کا اعزاز ایسی ہستی کے حصّے میں آجاتا ہے جو کتاب شناسی تو بڑی بات ہے، کتاب خوانی کی لذّت سے بھی محروم ہو۔ کیا کوئی صاحبِ کتاب واقعی اتنا بے بس ہوسکتا ہے کہ محض تشہیر اور ذاتی مفاد کی خاطر اپنی بے توقیری بخوشی قبول کر لے؟ کیا یہ مضحکہ خیز المیہ نہیں؟

بعض کتابیں اپنے موضوع، اسلوب، مواد کے سبب وہ پذیرائی حاصل کر لیتی ہیں اور صاحبِ کتاب کو بھی علمی اور ادبی حلقے ہی سے نہیں بسا اوقات عام قارئین کی جانب سے بھی وہ ”اعتبار“ حاصل ہو جاتا ہے جو اس کتاب اور صاحبِ کتاب کو حاصل نہیں ہوتا جس کی تشہیر کے لیے کسی”پانچ ستارہ“ ہوٹل میں تقریب کا انعقاد کیا گیا ہو یا جس تقریب کی صدارت کسی ”اعلیٰ سرکاری افسر“ یا کسی بڑی تجارتی کمپنی کے مالک کے حصّے میں آئی ہو۔

(فیچر رائٹر اور مضمون نگار شائستہ زریں‌ کے قلم سے)

Comments

- Advertisement -